عمر کی ساری تھکن لاد کے گھر جاتا ہوں
رات بستر پہ میں سوتا نہیں مر جاتا ہوں
میں نے جو اپنے خلاف آج گواہی دی ہے
وہ ترے حق میں نہیں ہے تو مکر جاتا ہوں
اکثر اوقات۔۔۔۔ بھرے شہر کے سناٹے میں
اس قدر زور سے ہنستا ہوں کہ ڈر جاتا ہوں
میرے آنے کی خبر صرف دیا رکھتا ہے
میں ہواؤں کی طرح آ کے گزر جاتا ہوں...
بروئے خاک تھے ذرّاتِ ریگ کے خیمے
بہ سطحِ آب، حبابوں کا شامیانہ تھا
پڑی تھیں عنْبریں زُلفیں کِسی کے شانے پر!
کِسی کی زُلف میں ہاتھوں کا اپنے شانا تھا
گھُلِی ہوئی تھیں صداؤں میں کچھ مدُھر تانیں
ہنْسی کے لحْن میں پایل کا چھنچھنانا تھا
ہم اہلِ ہوش کی انجُم جو لے اُڑا نیندیں!
کسی حَسِین کا...
غزل
حُسین انجُم
وہ آرہے ہیں آج یہ ساماں کریں گے ہم
ہرداغِ دل سے بزْم چراغاں کریں گے ہم
ہرضد کو آج یوں سرِعنواں کریں گے ہم
آرام زیرِ زُلفِ پریشاں کریں گے ہم
ساغر میں بھر کے روحِ مئے لالہ فام کو
قابُو میں اپنے گردشِ دَوراں کریں گے ہم
تعریفِ حُسنِ ساقی ومدحِ شراب میں
ہرتارِدل کوآج غزلخواں...
غزل
حُسین انجُم
زُلف خمدار ہے یا ناگ ہیں کالے جیسے
لب و رُخسار ہیں یا پھول ہیں لالے جیسے
مجھ سے پابندِ وفا کو ہے تو شکوہ یہ ہے
تو بھی ویسا ہی تِرے چاہنے والے جیسے
رُخِ روشن پہ ہے اِس طرح سے ریشم کی نقاب
ابر مہتاب کو دامن میں چھپا لے جیسے
سرنگوں یوں ہُوا سبزہ ترے پیروں کے تلے
آگئے دوش...
غزل
حُسین انجُم
خوشبو کسی بدن کا ابھی میرے بر میں ہے
گونجی ہُوئی صدا کوئی دِیوار و در میں ہے
کُشتہ ہیں اپنی فکرِ تغافل شعار کا
سودا کسی کی زُلف کا کب اپنے سرمیں ہے
ہر آئینے کو نقشِ تحیّر بنا دیا
وہ نقش کون سا دل آئینہ گر میں ہے
شورِ نشور جس کے مقابل ہے دم بخُود
ایسا سکوت دامنِ قلب...
غزل
حُسین انجُم
مہتاب تھا طالع مِرے گھر رات سے پہلے
چھائی تھی گھٹا زُلف کی برسات سے پہلے
لِیں عارضِ گلُرنگ کی زُلفوں نے بلائیں
جب سر ہُوا تسلیم میں خم ہاتھ سے پہلے
آباد ہے قدموں سے جو اب پیرِ مُغاں کے
تھا شیخ کا مسکن وہ خرابات سے پہلے
آنکھوں سے عیاں دل کا تقاضہ تو نہیں تھا
چھائی جو...
غزل
حُسین انجُم
خود کوغریقِ رحمتِ یاراں کرے کوئی
بیعت بدستِ قبلۂ رِنداں کرے کوئی
جب راہبر کی راہزنوں سے ہو دوستی
زادِ سفر کا کِس کو نگہباں کرے کوئی
جب جوئے خوں سے کشتِ حکومت کی ہو نمو
کیونکر فدائے شاہ دل وجاں کرے کوئی
جب شیخِ وقت حاشیہ بردارِ شاہ ہو
کیونکرنہ پاسِ رتبۂ سلطاں کرے کوئی...
غزل
(سید انجم کاظمی)
جھرنوں کی بات کیجئے گاگر اُچھالئے
رسموں کو توڑ تاڑ کے ساغر اُچھالئے
الفت کے پھول توڑئیے در در اُچھالئے
پیغام روشنی کا یہ گھر گھر اُچھالئے
آنکھیں لگیں ہیں شہر کی کچھ معجزہ سا ہو
حرفِ دعائے خاص کے گوہر اُچھالئے
رائج ہیں شہرِ فن میں بلندی کے کچھ اُصول
اک شے تو...