غزل
(انوار فیروز)
ہر اک بستی میں طوفاں آگیا ہے
نہیں ہے کوئی جو زندہ بچا ہے
ہر اک کو موت کا دھڑکا لگا ہے
جسے دیکھو وہی سہما ہوا ہے
کہاں جاؤں میں اپنی پیاس لے کر
سمندر ریت کا پھیلا ہوا ہے
بصارت ہر کسی کی چھن گئی ہے
اُجالا کس لیے اب ہورہا ہے
دعا مانگی تھی میں نے بارشوں کی
مرا کچّا گھروندا ڈھ...
غزل
وہ خود سراب ہے اوروں کو آب کیا دے گا
جو اک فریب ہے وہ احتساب کیا دے گا
وہ میرے دور کا چنگیز ہےکسے معلوم
نہ جانے شہر کو تازہ عذاب کیا دے گا
جو قول و فعل میں حائل ہے ناگ پھن کی طرح
مری صدی کو وہ سچ کا نصاب کیا دے گا
وہ جس کے ہاتھ سے میرا لہو ٹپکتا ہے
وہ اپنے ظلم کا مجھ کو حساب...