گیت
وادی ِتھر سن گیت پُرانا ریت پہ ننگے پاؤں
پھر میری سنگت میں گانا ریت پہ ننگے پاؤں
ریت پہ ننگے پاؤں سر پر دھوپ کی اِک اجرک
قافلہ ہے کس سمت روانہ ریت پہ ننگے پاؤں
سر پر مٹکہ گود میں بچّہ لب پر پیاس سجی
ڈھونڈے ماسی آب و دانہ ریت پہ ننگے پاؤں
الغوزہ ، بینجو، ڈھولک، اکتارا ساتھ لیے...
غزل
کیا بتائیں یار کیا کیا جل گیا
آگ میں جلنا تھا جتنا جل گیا
آگ پہلے سوکھے پتوں میں لگی
اور پھر جنگل گھنا سا جل گیا
کس قدر حدت مری خواہش میں تھی
ہاتھ میں آتے ہی پیسا جل گیا
میں نے دیکھا راکھ ہوتی آنکھ سے
ایک بچے کا کھلونا جل گیا
سید انورجاویدہاشمی،کراچی
ترقی پزیر پسماندہ اقوامِ عالم کے نمائندہ افراد کی جانب سے سالِ نو کی مبارکباد
ان لوگوںکے لیے جنہیں حکومت ، دولت میراث میںاور سیاست نسل در نسل برائے استحصالِعامہ ملتی ہے۔
ہیپی نیو ٹیئرز
مجھے معلوم ہے
نیویارک، لندن ، ماسکو، پیرس کی اور میونخ یا اٹلی کی گلیوں میں
بہت ہنگامہ آرائی...
سید انور جاوید ہاشمی کی ایک غزل جو انہوں نے ایک حادثے میں مفلوج ہونے بعد کہی ۔۔۔ (اب الحمد للہ روبہ صحت ہیں بغیر بیساکھیوں کے بھی چل لیتے ہیں ) واضح رہے کہ ہاشمی صاحب اس بزم کے رکن بھی ہیں ۔۔ مگر حاضری ۔۔ نہ ہونے کے برابر ہے۔۔ یہ غزل اسی کیفیت کی آئنہ دار ہے ۔۔۔ باقی آپ ملاحظہ کیجئے۔
دکھ جو...