انور جمال فاروقی

  1. شیزان

    نکلے تیری تلاش میں پھر در بدر رہے۔ انور جمال فاروقی

    نکلے تیری تلاش میں پھر در بدر رہے ہم خانہ بدوش لوگ تھے ،دریوزہ گر رہے اُلجھے ہیں کچھ اِس طرح غم ِروزگار میں گردشِ ماہ وسال سے بھی بے خبر رہے ہر شام کے نصیب میں اِک سفاک رات ہے ہر شام یہ سوچ کر ہم اپنے گھر رہے پچھلے برس سائبان صرصر تھی لے اڑی اب کے برس شاید نا دیوار اور در رہے کبھی...
Top