نہ پوچھو مصریو! کیا چاہیے ہے
میں یُوسف ہوں، زُلیخا چاہیے ہے
مُسافر کو جو جنگل سے نِکالے
وہ پگڈنڈی، وہ رستہ چاہیے ہے
قلم یا مو قلم سے کیا بتاؤں
جو صُورت ، جو سراپا چاہیے ہے
نظر آتا ہے کم کم گل رُخوں میں
مجھے جو ناک نقشہ چاہیے ہے
تمنا آپ ہی کی تھی مگر، اب
کوئی بھی آپ جیسا چاہیے ہے
تمہارا...