غزل
نہ ہوں آنکھیں تو پیکر کچھ نہیں ہے
جو ہے باہر، تو اندر کچھ نہیں ہے
محبّت اور نفرت کے عِلاوہ
جہاں میں خیر یا شر کچھ نہیں ہے
مجھے چھوٹی بڑی لگتی ہیں چیزیں
یہاں شاید برابر کچھ نہیں ہے
حقِیقت تھی، سو میں نے عرض کردی
شِکایت بندہ پَروَر کچھ نہیں ہے
نہ ہو کوئی شریکِ حال اُس میں
تو...
غزل
اسے آنکھوں کا نور کہتے ہیں
اور دل کا سرور کہتے ہیں
اس کے مسکن کو ہم کوئی فردوس
اور اسے ایک حور کہتے ہیں
وہ بلاتے ہیں اپنے پاس مگر
اور جاوء تو دور دور کہتے ہیں
جو نہیں چاہتا کوئی سننا
ہم وہ باتیں ضرور کہتے ہیں
سب لگاتے ہیں عشق پر الزام
حسن کو بے قصور کہتے ہیں
ایک دن...