لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے
بجلیاں بیتاب ہوں جن کو جلانے کے لیے
وائے ناکامی فلک نے تاک کر توڑا اسے
میں نے جس ڈالی کو تاڑا آشیانے کے لیے
آنکھ مل جاتی ہے ہفتاد و درِ ملّت سے تری
ایک پیمانہ ترا سارے زمانے کے لیے
دل میں کوئی اس طرح کی آرزو پیدا کروں
لوٹ جائے آسماں میرے مٹانے کے لیے
جمع...
آخری وقت میں کیا رونقِ دنیا دیکھوں
اب تو بس ایک ہی دُھن ہے کہ مدینہ دیکھوں
از اُفق تا بہ اُفق ایک ہی جلوہ دیکھوں
جس طرف آنکھ اٹھے روضئہ والا دیکھوں
عاقبت میری سنور جائے جو طیبہ دیکھوں
دستِ امروز میں آئینہ فردا دیکھوں
میں کہاں ہوں ، یہ سمجھ لوں تو اٹھاؤں نظریں
دل سنبھل جائے تو میں جانبِ خضرا...