اُردو
(اقبال اشہر)
اردو ہے مرا نام میں خسرو کی پہیلی
میں میر کی ہمراز ہوں غالب کی سہیلی
دکن کے ولی نے مجھے گودی میں کھلایا
سودا کے قصیدوں نے میرا حُسن بڑھایا
ہے میر کی عظمت کہ مجھے چلنا سکھایا
میں داغ کے آنگن میں کھلی بن کے چنبیلی
اردو ہے مرا نام میں خسرو کی پہیلی
غالب نے بلندی کا سفر مجھ کو...
غزل
(اقبال اشہر)
سلسلہ ختم ہوا جلنے جلانے والا
اب کوئی خواب نہیں نیند اُڑانے والا
یہ وہ صحرا ہے سمجھائے نہ اگر تو رستہ
خاک ہوجائے یہاں خاک اُڑانے والا
کیا کرے آنکھ جو پتھرانے کی خواہش نہ کرے
خواب ہو جائے اگر خواب دکھانے والا
یاد آتا ہے کہ میں خود سے یہیں بچھڑا تھا
یہی رستہ ہے ترے شہر کو جانے...
غزل
(اقبال اشہر)
پیاس دریا کی نگاہوں سے چھپا رکھی ہے
ایک بادل سے بڑی آس لگا رکھی ہے
تیری آنکھوں کی کشش کیسے تجھے سمجھاؤں
ان چراغوں نے میری نیند اُڑا رکھی ہے
کیوں نہ آجائے مہکنے کا ہُنر لفظوں کو
تیری چٹھی جو کتابوں میں چھپا رکھی ہے
تیری باتوں کو چھپانا نہیں آتا مجھ سے
تونے خوشبو میرے لہجے میں...
غزل
(اقبال اشہر)
ڈاکٹر بشیر بدر کی زمین میں
خفا ہے ہم سے بہت آسمان کی خوشبو
کہاں سے لائیں بلالی اذان کی خوشبو
جُدا نہ کیجئے الفاظ کو صداقت سے
کشش نہ کھو دے کہیں داستان کی خوشبو
اس اعتبار سے کس درجہ مالا مال ہیں ہم
ہمیں نصیب ہے اُردو زبان کی خوشبو
کہ تم قفس کے نہیں، مصلحت کے قیدی ہو
تمہیں نصیب...
غزل
(اقبال اشہر)
نئے موسموں کی کوئی خوشی، نہ گئی رُتوں کا ملال ہے
تیرے بعد میری تلاش میں کوئی خواب ہے نہ خیال ہے
وہ چراغ ہوں کہ جسے ہوا نہ جلا سکی نہ بجھا سکی
میری روشنی کے نصیب میں نہ عروج ہے نہ زوال ہے
یہ ہے شہرِ جسم وہ شہرِ جاں، نہ یہاں سکوں نہ وہاں سکوں
یہاں خوشبوؤں کی تلاش ہے وہاں روشنی...
غزل
(اقبال اشہر)
ٹھہری ٹھہری سی طبیعت میں روانی آئی
آج پھر یاد محبت کی کہانی آئی
آج پھر نیند کو آنکھوں سے بچھڑتے دیکھا
آج پھر یاد کوئی چوٹ پرانی آئی
مدتوں بعد چلا اُن پہ ہمارا جادو
مدتوں بعد ہمیں بات بنانی آئی
مدتوں بعد پشیماں ہوا دریا ہم سے
مدتوں بعد ہمیں پیاس چھپانی آئی
مدتوں بعد کھلی...
غزل
(اقبال اشہر)
یہ جگنوؤں کی قیادت میں چلنے والے لوگ
تھے کل چراغ کی مانند جلنے والے لوگ
ہمیں بھی وقت نے پتھر صفت بنا ڈالا
ہمیں تھے موم کی صورت پگھلنے والے لوگ
ہمیں نے اپنے چراغوں کو پائمال کیا
ہمیں ہیں اب کفِ افسوس ملنے والے لوگ
سمٹ کے رہ گئے ماضی کی داستانوں تک
حدودِ ذات سے آگے نکلنے والے...
غزل
(اقبال اشہر)
اُس کی خوشبو میری غزلوں میں سمٹ آئی ہے
نام کا نام ہے، رسوائی کی رسوائی ہے
دل ہے اک اور دوعالم کا تمنائی ہے
دوست کا دوست ہے، ہرجائی کا ہرجائی ہے
ہجر کی رات ہے اور اُن کے تصوّر کا چراغ
بزم کی بزم ہے، تنہائی کی تنہائی ہے
کون سے نام سے تعبیر کروں اِس رُت کو
پھول مرجھائے ہیں،...