کل شب دلِ آوارہ کو سینے سے نکالا
یہ آخری کافر بھی مدینے سے نکالا
یہ فوج نکلتی تھی کہاں خانۂِ دِل سے
یادوں کو نہایت ہی قرینے سے نکالا
میں خون بہا کر بھی ہوا باغ میں رُسوا
اُس گُل نے مگر کام پسینے سے نکالا
ٹھہرے ہیں زر و سیم کے حقدار تماشائی
اور مارِ سیہ ہم نے دفینے سے نکالا
یہ سوچ کے...