عجب واعظ کی دیں داری ہے یا رب!
عداوت ہے اسے سارے جہاں سے
کوئی اب تک نہ یہ سمجھا کہ انساں
کہاں جاتا ہے آتا ہے کہاں سے
وہیں سے رات کو ظلمت ملی ہے
چمک تارے نے پائی ہے جہاں سے
ہم اپنی درد مندی کا فسانہ
سُنا کرتے ہیں اپنے رازداں سے
بڑی باریک ہیں واعظ کی چالیں
لرزجاتا ہے آوازِ اذاں سے علامہ...
غرۂ شوال! اے نور نگاہ روزہ دار
آ کہ تھے تیرے لیے مسلم سراپا انتظار
تیری پیشانی پہ تحریر پیام عید ہے
شام تیری کیا ہے ، صبح عیش کی تمید ہے
سرگزشت ملت بیضا کا تو آئینہ ہے
اے مہ نو! ہم کو تجھ سے الفت دیرینہ ہے
جس علم کے سائے میں تیغ آزما ہوتے تھے ہم
دشمنوں کے خون سے رنگیں قبا ہوتے تھے...
یہ شالامار میں اک برگ زرد کہتا تھا
گیا وہ موسم گل جس کا رازدار ہوں میں
نہ پائمال کریں مجھ کو زائران چمن
انھی کی شاخ نشیمن کی یادگار ہوں میں
ذرا سے پتے نے بیتاب کر دیا دل کو
چمن میں آکے سراپا غم بہار ہوں میں
خزاں میں مجھ کو رلاتی ہے یاد فصل بہار
خوشی ہو عید کی کیونکر کہ سوگوار ہوں...