ڈاکٹر پیرزادہ قاسم
کفن باندھے ہوئے یہ شہر سارا جا رہا ہے کیوں
سُوئے مقتل ہی ہر رستہ ہمارا جا رہا ہے کیوں
مُسَلسَل قتل ہونے میں بھی اِک وقفہ ضرُوری ہے
سرِ مقتل ہَمِیں کو، پِھر پُکارا جا رہا ہے کیوں
یہ منشُورِ سِتم! لیکن اِسے ہم مانتے کب ہیں
صحیفے کی طرح ہم پر اُتارا جا رہا ہے کیوں
یہاں اب...
میرے کام بہت آتا ہے اک انجانا غم
روز خوشی میں ڈھل جاتا ہے اک انجانا غم
دن بھر میں اور کارِ زمانہ لیکن شام ڈھلے
ساتھ مرے گھر آ جاتا ہے اک انجانا غم
جانے پہچانے سارے غم بجھنے لگتے ہیں
اس دل پر جب لہراتا ہے اک انجانا غم
کتنے ہی دفتر فکر و سخن کے لکھ ڈالے تو کُھلا
بس اتنا احوال لکھا ہے...
میں کب سے اپنی تلاش میں ہوں، ملا نہیں ہوں
سوال یہ ہے کہ میں کہیں ہوں بھی، یا نہیں ہوں
یہ میرے ہونے اور نہ ہونے سے منکشف ہے
کہ رزمِ ہستی میں کیا ہوں میں اور کیا نہیں ہوں
میں شب نژادوں میں صبحِ فردا کی آرزو ہوں
میں اپنے امکاں میں روشنی ہوں، صبا نہیں ہوں
گلاب کی طرح عشق میرا مہک رہا ہے...