کدورتوں کے درمیاں، عداوتوں کے درمیاں
تمام دوست اجنبى ہيں، دوستوں کے درمياں
زمانه ميرى داستاں پہ رو رہا ہے آج كيوں
يہی تو كل سنى گئی تھی قہقہوں کے درمياں
ضمير عصر ميں كبھی ، نوائے درد ميں كبھی
سخن سرا تو ميں بھی ہوں صداقتوں کے درمياں
شعور عصر ڈھونڈتا رہا ہے مجھ كو اور ميں
مگن ہوں عہد...
کب تک کوئی طوفان اُٹھانے کے نہیں ہم
بے صرفہ تو اب جان سے جانے کے نہیں ہم
تعبیر گرو، مہلتِ خمیازہ تو دے دو
ہر روز نیا خواب سنانے کے نہیں ہم
جب گفتگو اک عہدِ گراں گوش سے ٹھہرے
کر گزریں گے کچھ، شور مچانے کے نہیں ہم
اب یوں ہے کہ ہم خود سے ہوئے برسرِ پیکار
مجبوری ہے یا فرض ، بتانے کے...
رسوائی کا میلہ تھا سو میں نے نہیں دیکھا
اپنا ہی تماشا تھا سو میں نے نہیں دیکھا
اُس خوابِ تمنا کی تعبیر نہ تھی کوئی
بس خوابِ تمنا تھا سو میں نے نہیں دیکھا
نیرنگئی دنیا کا منظر تھا حسیں لیکن
اس سر میں بھی سودا تھا سو میں نے نہیں دیکھا
پیاسے تو رہے لیکن توقیر نہیں کھوئی
دریا جو پرایا...
غم سے بہل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
درد میں ڈھل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
سایہء وصل کب سے ہے آپ کا منتظر مگر
ہجر میں جل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
اپنے خلاف فیصلہ خود ہی لکھا ہے آپ نے
ہاتھ بھی مَل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
وقت نے آرزو کی لَو دیر ہوئی بجھا بھی دی
اب بھی پگھل...
زندگی نے جھیلے ہیں سب عذاب دنیا کے
بس رہے ہیں آنکھوں میں پھر بھی خواب دنیا کے
دل بجھے تو تاریکی دُور پھر نہیں ہوتی
لاکھ سر پہ آ پہنچیں آفتاب دنیا کے
دشتِ بےنیازی ہے اور میں ہوں اب لوگو
اس جگہ نہیں آتے باریاب دنیا کے
میں نے تو ہواؤں سے داستانِ غم کہہ دی
دیکھتے رہے حیراں سب حجاب دنیا...
میرے کام بہت آتا ہے اک انجانا غم
روز خوشی میں ڈھل جاتا ہے اک انجانا غم
دن بھر میں اور کارِ زمانہ لیکن شام ڈھلے
ساتھ مرے گھر آ جاتا ہے اک انجانا غم
جانے پہچانے سارے غم بجھنے لگتے ہیں
اس دل پر جب لہراتا ہے اک انجانا غم
کتنے ہی دفتر فکر و سخن کے لکھ ڈالے تو کُھلا
بس اتنا احوال لکھا ہے...
میں کب سے اپنی تلاش میں ہوں، ملا نہیں ہوں
سوال یہ ہے کہ میں کہیں ہوں بھی، یا نہیں ہوں
یہ میرے ہونے اور نہ ہونے سے منکشف ہے
کہ رزمِ ہستی میں کیا ہوں میں اور کیا نہیں ہوں
میں شب نژادوں میں صبحِ فردا کی آرزو ہوں
میں اپنے امکاں میں روشنی ہوں، صبا نہیں ہوں
گلاب کی طرح عشق میرا مہک رہا ہے...
اب حرفِ تمنا کو سماعت نہ ملے گی
بیچو گے اگر خواب تو قیمت نہ ملے گی
تشہیر کے بازار میں اے تازہ خریدار
زیبائشیں مل جائیں گی قامت نہ ملے گی
لمحوں کے تعاقب میں گزر جائیں گی صدیاں
یوں وقت تو مل جائے گا مہلت نہ ملے گی
سوچا ہی نہ تھا یوں بھی اسے یاد رکھیں گے
جب اس کو بھلانے کی بھی فرصت نہ ملے گی...