جو منظر بجھ رہا ہے منتظر کِن ساعتوں کا ہے
اُفق پر دیر سے ٹھہرا ہُوا سایہ گھروں کا ہے
میں اپنے داغ داغِ سینۂ بے سوز سے خوش ہُوں
دلِ حسرت زدہ میں ایک منظر روزنوں کا ہے
نشیمن میں ہے اک منقار، دو وحشت زدہ آنکھیں
دھواں پھیلا ہُوا چاروں طرف جلتے پروں کا ہے
کسی گوشے میں سوتی ہے تمنّا اک تعلّق...
غزل
لگی ذرا نہ طبیعت بَہِشت میں اپنی
زمِیں کے دُکھ تھے بہت سرنَوِشت میں اپنی
اندھیرے گھر میں یہی روشنی کا رَوزَن ہے
چُنی ہے آنکھ جو دِیوارِ خِشت میں اپنی
اِنہی سِتاروں سے پُھوٹیں گے تِیرَگی کے شَجر
جو آسمان نے بَوئے ہیں کشت میں اپنی
اِسی لِئے تو پڑی اپنے پاؤں میں زنجیر
کہ سرکشی تھی...
آگہی
تم نے تو کہا تھا ہر حقیقت
اِک خوابِ ابد ہے در حقیقت
رنگوں کے سراب سے گُزر کر
رعنائیِ خواب سے گُزر کر
نیرنگئ زیست سب فسانہ
کیا گردِشِ وقت، کیا زمانہ
تاروں بھرے آسماں کے نیچے!
کُھلتے نہیں نُور کے دَرِیچے
تارِیک ہے زندگی کا رستا
گہرے ہوں ہزار غم کے سائے
چلتے رہو یُونہی چشم بَستہ
اِک یاد...
سید نصیر الدین نصیر
نگینوں کی تلاش
از صاحبزادہ پیر سید ظفر قادری
غزلیاتِ نصیر گولڑوی
ڈاکٹر سید عبد اللہ مرحوم
تخلیقاتِ نصیر
دستاویزی ویڈیو حصہ اول : سید نصیر الدین نصیر
دستاویزی ویڈیو حصہ دوم : سید نصیر الدین نصیر