ڈاکٹر عافیہ۔ ۔ ۔ ۔
سلگ رہی ہے نظر، روح اضطراب میں ہے
ضمیرِ قوم بھی زندہ ہے مست خواب میں ہے
وہ کیسی قوم تھی کہ جسکی ایک بیٹی نے
صدا لگائی تھی، پھر جو ہوا نصاب میں ہے
صدا کی گونج سے اعصاب جھنجھنا اُٹّھے
وہ ارتعاش کہ تاریخ کی کتاب میں ہے
صدا تو اب بھی وہی ہے مگر بصحرا ہے
سماعتوں کے قحط میں...