غزل
نہ ہو طغیانِ مشتاقی تو ” میں “ رہتا نہیں باقی
کہ میری زندگی کیا ہے، یہی طغیانِ مشتاقی
مجھے فطرت ، نوا پر، پے بہ پے مجبور کرتی ہے
ابھی محفل میں ہے شاید کوئی دردآشنا ، باقی
وہ آتش آج بھی تیرا نشیمن پھونک سکتی ہے
طلب صادق نہ ہو تیری ، تو پھر کیا شکوہِ ساقی
نہ کر ، افرنگ کا اندازہ اس کی...