اُٹھائے ہیں کیا کیا ستم رات بھر میں
دیے جل رہے ہیں اُمیدِ سحر میں
بہت سے کٹھن راستے ہیں مگر تم
چراغوں کو بجھنے نہ دینا نگر میں
بتاتی ہیں پلکوں کی یہ الجھنیں کہ
دریچے کُھلے ہی رہے رات بھر میں
اُٹھاتے اُٹھاتے میں اب تھک چکا ہوں
بہت سے پتھر آئے ہیں رہ گزر میں
کریں ہم جو ہجرت تو راحت بہت ہے
مگر...