اردو شاعری اور کراچی

  1. رشید حسرت

    جاگیر میں شامل

    نمی آنکھوں کی بھی محسُوس کی تحرِیر میں شامِل کہ کاجل کی دِکھے ہے دھار سی تنوِیر میں شامِل مُجھے پا بند کر لیتی کہاں زنجِیر میں دم تھا تُمہاری زُلف کی اِک لَٹ رہی زنجِیر میں شامِل عِمارت میں جو سِطوت ہے ہمارے دم قدم سے ہے ازل سے ہے غرِیبوں کا لہُو تعمِیر میں شامِل عدُو سے کوئی شِکوہ ہے، نہ...
  2. رشید حسرت

    آسمانی تھے

    بِچھڑ جانا پڑا ہم کو لِکھے جو آسمانی تھے جُدا کر کے ہمیں دیکھا مُقدّر پانی پانی تھے تراشِیدہ صنم کُچھ دِل کے مندر میں چُھپائے ہیں کہِیں پر کابُلی تھے بُت کہِیں پر اصفہانی تھے ہوا بدلا نہِیں کرتی کہ جیسے تُم نے رُخ بدلا پرائے ہو گئے؟ کل تک تُمہاری زِندگانی تھے نجانے کِس طرح کی خُوش گُمانی ہم...
  3. رشید حسرت

    سنبھالا گیا

    گیا جہان سے ادنا یا کوئی اعلا گیا کسی کا غم بھی کہاں دیر تک سنبھالا گیا سلیقہ اس میں مجھے اک ذرا دِکھے تو سہی کہا جو کام ہمیشہ وہ کل پہ ٹالا گیا قُصور ہو گا تُمہارا بھی کچھ نہ کچھ گُڑیا سبب تو ہے جو تمہیں گھر سے یوں نکالا گیا پجاری مال کے ایسے کہ جیسے مالا ہو جہاں بھی چاند گیا ساتھ اُس کا...
  4. رشید حسرت

    رات۔

    جِسم تھا نُور اِسے ہم نے ہی پہنائی رات کھا گئی دِن کے اُجالوں کو یہاں چھائی رات شب کے دامن میں فقط خواب ہے محرُومی ہے ہم کو مفہُوم یہ سمجھانے چلی آئی رات ہم تو خُود اپنی ہتھیلی پہ جلا لائے چراغ پِھر جو اشکوں کے سِتاروں سے نہ سج پائی رات دِن ہمیں شب کے اندھیرے میں ملا، کیا کرتے دن کو...
  5. رشید حسرت

    سرگِرانی۔

    عوام بُھوک سے دیکھو نِڈھال ہے کہ نہِیں؟ ہر ایک چہرے سے ظاہِر ملال ہے کہ نہِیں؟ تمام چِیزوں کی قِیمت بڑھائی جاتی رہی غرِیب مارنے کی اِس میں چال ہے کہ نہِیں؟ پہُنچ سے پہلے ہی باہر تھا عیش کا ساماں فلک کے پاس ابھی آٹا، دال ہے کہ نہِیں؟ جو برق مہِنگی بتاتا بِلوں کو پھاڑتا تھا کُچھ اپنے عہد...
  6. رشید حسرت

    تسلِیم ہم شِکست کریں یا نہِیں کریں

    تسلِیم ہم شِکست کریں یا نہِیں کریں اپنی انا کو پست کریں یا نہِیں کریں اِک شب کا ہے قیام رہو تُم ہمارے ساتھ کھانے کا بند و بست کریں یا نہِیں کریں شوہر بِچارے سوچ میں ڈُوبے ہُوئے ہیں آج بِیوی کو زیرِ دست کریں یا نہِیں کریں اعصاب کی شکست کو عرصہ گُزر گیا پِھر سے عدم کو ہست کریں یا نہِیں کریں...
  7. رشید حسرت

    مہنگائی بم

    لعنت ہو حُکمرانوں کے ایسے نِظام پر افلاس مُنتظر ہے جہاں گام گام پر ہر روز قِیمتوں میں اِضافہ ہے بے پناہ جُوں تک بھی رِینگتی نہیں ابنِ غُلام پر فاقوں سے لوگ خُود کُشی آمادہ ہوگئے "مہنگائی بم" گِرا ہے نِہتّے عوام پر ہِیرا شِماؔ کو بم نے کیا تھا تبہ مگر برباد ہم ہُوئے ہیں تغیُّر کے نام پر...
  8. رشید حسرت

    ایک انکشاف رہا

    تمام عُمر اُسے مُجھ سے اِختِلاف رہا رہا وہ گھر میں مِرے پر مِرے خِلاف رہا خبر نہِیں کہ تِرے من میں چل رہا یے کیا؟ تِری طرف سے مِرا دِل ہمیشہ صاف رہا بجا کہ رُتبہ کوئی عین قاف لام کا ہے بلند سب سے مگر عین شِین قاف رہا مُجھے گُماں کہ کوئی مُجھ میں نقص بھی ہو گا؟ رہا نقاب میں چہرہ، تہہِ...
  9. رشید حسرت

    زُلفِ پریشاں ایک ساتھ

    بس رہے ہیں اس نگر میں جِن و اِنساں ایک ساتھ یہ رِوایت چل پڑی ہے ظُلم و احساں ایک ساتھ اب توقع ہم سے رکھنا خیر خواہی کی عبث ہم نے سارے توڑ ڈالے عہد و پیماں ایک ساتھ چھا گئی ہے زِندگی پر اب تو فصلِ رنج و غم جھیلتے ہیں زخمِ دوراں، قیدِ زنداں ایک ساتھ بِالیقیں ہوں گے مُیسّر، تھے نصِیبوں میں اگر...
  10. رشید حسرت

    ادا کاری کریں

    کوئی بھی سچّا نہِیں ہے، سب اداکاری کریں آؤ مِل کر دوست بچپن کے، عزا داری کریں اِن کو اپنے آپ سے بڑھ کر نہِیں کوئی عزِیز پیار جُھوٹا جو جتائیں اور مکّاری کریں بھیڑ بکری کی طرح یہ بس میں ٹھونسیں آدمی اور بولیں اور تھوڑی آپ بیداری کریں تب تو اِن کی بات پر تُم کان تک دھرتے نہ تھے اب تُمہارا...
  11. رشید حسرت

    تحلیل ہوئی جاتی ہے

    غم کی کِس شکل میں تشکِیل ہُوئی جاتی ہے آدمیت کی بھی تذلِیل ہُوئی جاتی ہے ہر قدم زِیست چھنکتی ہے چھناکا بن کر جِس طرح کانچ میں تبدِیل ہُوئی جاتی ہے اُس کے حِصّے کی زمِینیں بھی مِرے ہاتھ رہِیں مُستقِل طور پہ تحصِیل ہُوئی جاتی ہے اب مِرا اُس سے تعلُّق بھی نہِیں ہے کوئی اور احکام کی تعمِیل...
  12. رشید حسرت

    بام پر نہیں ہوں گے

    آج چہچہاتے ہیں کل مگر نہیں ہوں گے آشنا سے یہ چہرے بام پر نہیں ہوں گے دل پہ ڈال کر ڈاکہ چُھپ کے بیٹھ جاتے ہیں جا کے دیکھ لیں لیکن، لوگ گھر نہیں ہوں گے پی کے ہم بہکتے تھے چھوڑ دی ہے اب یارو کھائی ہے قسم ہم نے، ہونٹ تر نہیں ہوں گے اُس کے من پسندوں میں ہم اگر نہیں شامل جان بھی لُٹا دیں تو معتبر...
  13. سید افتخار احمد رشکؔ

    اردو غزل

    تازہ ترین بے سبب کب تری عداوت تھی میری ہر بات میں حقیقت تھی ایک انگلی سے مجھ پہ تہمت تھی باقی چاروں سے تجھ پہ لعنت تھی بانس پر نہ چڑھا سکا کوئی آئینہ دیکھنا جو عادت تھی جس کو عزت جتا رہا تھا تُو وہ خوشامد ہی تیری ذلت تھی چاپلوسی کا خوب ماہر تھا جس سے مجھ کو بہت کراہت تھی دعوٰی کاتب کو شاعری کا...
  14. کاشفی

    عرفان صدیقی حق فتح یاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا - عرفان صدیقی

    غزل عرفان صدیقی، لکھنؤ - 1939 - 2004 حق فتح یاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا تو نے کہا تھا تیرا کہا کیوں نہیں ہوا جب حشر اسی زمیں پہ اُٹھائے گئے تو پھر برپا یہیں پہ روزِ جزا کیوں نہیں ہوا وہ شمع بجھ گئی تھی تو کہرام تھا تمام دل بجھ گئے تو شور عزا کیوں نہیں ہوا داماندگاں پہ تنگ ہوئی کیوں تری زمیں...
Top