آنند نرائن مُلّا
غزل
تابِ جلوہ بھی تو ہو، وہ سُوئے بام آیا تو کیا
چشمِ مُوسیٰ لے کے عشقِ تشنہ کام آیا تو کیا
کردِیا اِک باراُس کا پیکرِ خاکی تو سُرخ
خُونِ دل گرخنجرِ قاتِل کے کام آیا تو کیا
مُدّعائے دِل سمجھ لیں گے، اگر چاہیں گے وہ
میرے ہونٹوں تک سوالِ نا تمام آیا تو کیا
گِرچُکی اِک بار...
آنند نرائن مُلّا
غزل
گزُری حیات، وہ نہ ہُوئے مہرباں کبھی
سُنتے تھے ہم، کہ عشق نہیں رایگاں کبھی
اِتنا تو یاد سا ہے ، کہ ہم تھے جواں کبھی
پھرتی ہیں کُچھ نِگاہ میں پرچھائیاں کبھی
دو گُل قفس میں رکھ کے نہ صیّاد دے فریب
دیکھا ہے ہم نے، جیسے نہیں آشیاں کبھی
بُھولے ہوئے ہو تم ، تو...