غزل
دل کی ہوس وہی ہے مگر دل نہیں رہا
محمل نشیں تو رہ گیا محمل نہیں رہا
پہنچی نہ اُڑ کے دامنِ عصمت پہ گرد تک
اس خاک اُڑانے کا کوئی حاصل نہیں رہا
رکھتے نہیں کسی سے تسلی کی چشم داشت
دل تک اب اعتبار کے قابل نہیں رہا
آہستہ پاؤں رکھیے قیامت نہ کیجیے
اب کوئی سر اُٹھانے کے قابل نہیں رہا
اک...
غزل
دلِ آگاہ نے جب راہ پہ لانا چاہا
عقلِ گم راہ نے دیوانہ بنانا چاہا
ناگہاں چرخِ ستم گار نے کروٹ بدلی
بختِ بیدار نے جب مجھ کو جگانا چاہا
پھر سمانے لگی دنیا کی ہوا "مَیں" کی طرح
زانوئے فکر سے جب سر کو اُٹھانا چاہا
دلِ بیدار نے گھبرا کے مجھے چونکایا
نفس نے جب کسی مشکل میں پھنسانا چاہا
جذبۂ...
مرزاا یاسؔ، یگانہؔ، چنگیزیؔ
بر غزلِ شہیدیؔ
آرہی ہے یہ صدا کان میں ویرانوں سے
کل کی ہے بات کہ آباد تھے دِیوانوں سے
لے چلی وحشتِ دِل کھینچ کے صحرا کی طرف
ٹھنڈی ٹھنڈی جو ہوا آئی بیابانوں سے
پاؤں پکڑے نہ کہِیں کوچۂ جاناں کی زمِیں
خاک اُڑاتا جو نکل آؤں بیابانوں سے
تنکے چُن جا کے کسی کوچے میں او...
غزل
مشفؔق خواجہ
غُبار ِ راہ اُٹھا کِس کو روکنے کے لیے
مِری نظر میں تو رَوشن ہیں منزِلوں کے دِیے
اگر فُزُوں ہو غَم ِ دِل، سکوُت بھی ہے کلام
اِسی خیال نے، اہلِ جنوُں کے ہونٹ سِیے
دِلِ حَزِیں میں ، نہ پُوچھ اپنی یاد کا عالَم
فِضائے تِیرہ میں، جیسے کہ جَل اُٹھے ہوں دِیے
فُسُردہ شمعوں سے، ہوتا...
یگانہ ایک قادر الکلام شاعر تھے لیکن جب وہ پچھلی صدی کے اوائل میں عظیم آباد سے ہجرت کر کے لکھنؤ آئے تو لکھنؤ والوں نے ان کی بالکل ہی قدر نہ کی۔ اس وقت لکھنؤ والے اپنے برے سے برے شاعر کو بھی باہر والے اچھے سے اچھے شاعر کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دیتے تھے اور یگانہ چونکہ "باہر والے" تھے سو لکھنؤ...
لذّتِ زندگی مُبارک باد
کل کی کیا فکر؟ ہر چہ بادا باد
اے خوشا زندگی کہ پہلوئے شوق
دوست کے دم قدم سے ہے آباد
دل سلامت ہے، دردِ دل نہ سہی
درد جاتا رہا کہ درد کی یاد؟
زیست کے ہیں یہی مزے واللہ
چار دن شاد، چار دن ناشاد
کون دیتا ہے دادِ ناکامی
خونِ فرہاد برسرِ فرہاد
صبر اتنا نہ کر کہ دشمن پر
تلخ...
ایک اور تانے بانے میں ابھی یاس یگانہ کی اس غزل کا ایک شعر پوسٹ کیا تھا. خیال آیا کہ پوری غزل ہی یہاں بھی پوسٹ کر دوں. اور شاید یہ تانا بانا ا ب تک مجھ سے اچھوتا تھا، اس کا ازالہ بھی کر دوں.......
غزل.. یاس یگانہ چنگیزی
کس کی آواز کان میں آئی
دور کی بات دھیان میں آئی
آپ آتے رہے بلاتے رہے...
مجھے دل کی خطا پر یاس شرمانا نہیں آتا
پرایا جرم اپنے نام لکھوانا نہیں آتا
بُرا ہو پائے سرکش کا کہ تھک جانا نہیں آتا
کبھی گمراہ ہو کر راہ پر آنا نہیں آتا
مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
مجھے سر مار کر تیشے سے مر جانا نہیں آتا
دلِ بے حوصلہ ہے اک ذرا سی ٹھیس کا مہماں
وہ آنسو کیا پئے گا...