غزل
خِزاں کے جَور سے واقف کوئی بہار نہ ہو
کسی کا پَیرَہَنِ حُسن تار تار نہ ہو
برنگِ سبزۂ بیگانہ روند ڈالے فلک
مجھے، بہار بھی آئے تو ساز گار نہ ہو
خِزاں کے آتے ہی گلچیں نے پھیر لیں آنکھیں
کسی سے کوئی وَفا کا اُمِیدوار نہ ہو
ٹھہر ٹھہر دلِ وحشی، بہار آنے دے
ابھی سے بہر خُدا اِتنا بے قرار نہ ہو...
غزل
زحمتِ سجدہ ہے فضول بُت کدۂ مجاز میں
ہو گی نماز کیا قبول، کعبۂ خانہ ساز میں
دیکھ کے حسنِ خوب و زشت، انجمنِ مجاز میں
ہوش و خرد ہیں مبتلا زحمتِ امتیاز میں
مارے پڑے ہیں بو الہوس جلوہ گہِ مجاز میں
کھائی شکست کوششِ فتخِ طلسمِ راز میں
واہ رے مطمحِ نظر، واہ رے سیرِ مختصر
کعبے سے دیر کا...
رباعی
بھونڈا پن ہے مذاقِ غالبؔ میں رَچا
مرزا کا کمال اپنی نظر میں نہ جَچا
محفل میں ہے اب رنگِ یکانہ غالب
وہ کون یکانہؔ ؟ وہی غالبؔ کے چچا مرزا یاس یگانہ چنگیزی
غزل
نِگاہِ بے زباں نے کیا اثر ڈالا برہمن پر
مِٹا ہے پیکرِ بے دست و پا کے، رنگ و روغن پر
رہا تا حشر احسانِ ندامت اپنی گردن پر
بجائے مے، ٹپکتا ہے زُلالِ اشک دامن پر
شرف بخشا دِلِ سوزاں نے مُجھ کو دوست دشمن پر
وہ دِل جِس کا ہر اِک ذرّہ ہے بھاری موم و آہن پر
نجانے پہلی منزِل برقِ سوزاں کی کہاں...
غزل
سر سلامت پِھر بہارِ سنگِ طِفلاں دیکھنا
دِل سلامت لذّتِ صد درد و درماں دیکھنا
جنگِ حُسن و عشق کا، کیا دل شکن نظارہ ہے!
شعلہ و پروانہ کو دست و گریباں دیکھنا
آنکھ بھر کر جاگتے ہیں کوئی دیکھے کیا مجال
خواب میں ممکن ہو شاید رُوئے جاناں دیکھنا
جلوۂ موہوم کیا اِک دُرد کا پیمانہ ہے
ہوگیا آپے سے...
غزل
ہے کوئی ایسا محبّت کے گنہگاروں میں
سجدۂ شُکر بجالائے جو تلواروں میں
دِل سی دولت ہے اگر پاس، تو پِھر کیا پردا
نام لِکھوائیےیوسفؑ کے خرِیداروں میں
رُوح نے عالَمِ بالا کا اِرادہ باندھا
چِھڑ گیا ذکرِ وطن جب وطن آواروں میں
یاسؔ، یگانہؔ، چنگیزیؔ
(1914-16)
مرزاا یاسؔ، یگانہؔ، چنگیزیؔ
بر غزلِ شہیدیؔ
آرہی ہے یہ صدا کان میں ویرانوں سے
کل کی ہے بات کہ آباد تھے دِیوانوں سے
لے چلی وحشتِ دِل کھینچ کے صحرا کی طرف
ٹھنڈی ٹھنڈی جو ہوا آئی بیابانوں سے
پاؤں پکڑے نہ کہِیں کوچۂ جاناں کی زمِیں
خاک اُڑاتا جو نکل آؤں بیابانوں سے
تنکے چُن جا کے کسی کوچے میں او...
میرزایاسؔ، یگانہ، چنگیزیؔ
غزل
آنکھ کا مارا مرے نزدیک آزاری نہیں
اور جو سچ پُوچھو تو اچّھی کوئی بیماری نہیں
کہہ رہا ہُوں قابِلِ مرہم نہیں زخمِ جگر
چارہ سازو! یہ دِل آزاری ہے غم خواری نہیں
پھینک دو آئینۂ دِل کو جو گاہک اُٹھ گئے
اب کہِیں بازار میں اِس کی خریداری نہیں
دیکھتے ہی دیکھتے بدلا...
مِرزا یاس، یگانہ،چنگیزی
بخت بیدار اگر سِلسِلہ جُنباں ہو جائے
شام سے بڑھ کے سَحر دست و گریباں ہوجائے
پڑھ کے دو کلمے اگر کوئی مُسلماں ہوجائے
پھر تو حیوان بھی دو دن میں اِنساں ہو جائے
آگ میں ہو جسے جلنا تو وہ ہندُو بن جائے
خاک میں ہو جسے مِلنا وہ مُسلماں ہو جائے
دُشمن و دوست سے آباد...
غزلِ
مِرزا یاس عظیم آبادی، یگانہ
ازل سے سخت جاں آمادۂ صد اِمتحاں آئے
عذابِ چند روزہ یا عذابِ جاوِداں آئے
کنْول روشن تو ہو دِل کا پیامِ ناگہاں آئے
بَلا سے شامتِ پروانۂ آتش بجاں آئے
قفس بردوش پھرتے ہیں خِزاں آبادِ عالم میں !
اسیرانِ ازل گھر چھوڑ جنگل میں کہاں آئے
بہارستانِ عبرت...
یاس عظیم آبادی کو کون نہیں جانتا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ یاس کا نام سن کر اکثر لوگوں کا خون جوش مارنے لگتا ہے، دل میں ایک عجیب ہی گستاخ اور بے ادب انسان کا خاکہ بن جاتا ہے۔ مگر کوئی بات نہیں۔ بات تو یہ ہے کہ بد نام اگر ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا؟؟؟ یہ مثال یاس پر بالکل صادق آتی ہے۔ یاس کی بدنامی ہی...
غالب کے اسلوب میں:
پیش خیمہ موت کا خوابِ گراں ہو جائے گا
سیکڑوں فرسنگ آگے کارواں ہو جائے گا
قالبِ خاکی کہاں تک ساتھ دے گا روح کا
وقت آ جانے دو اک دن امتحاں ہو جائے گا
چپکے چپکے ناصحا، پچھلے پہر رو لینے دے
کچھ تو ظالم، چارۂ دردِ نہاں ہو جائے گا
شب کی شب مہماں ہے یہ ہنگامۂ عبرت سرا
صبح تک...
غزلِ
میرزا یاس یگانہ
آئینے میں سامنا جب ناگہاں ہوجائے گا
پردۂ غیرت وہاں بھی درمیاں ہوجائے گا
کس محبت سے جگہ دی، دل نے دردِ عشق کو
کیا خبر تھی تشنۂ خُوں میہماں ہوجائے گا
نیند کے ماتے ٹھہرجا، آنکھ کھُلنے کی ہے دیر
چشمِ حیراں میں سُبک خوابِ گِراں ہوجائے گا
جان دیتے دیر کیا لگتی ہے تیری...
غزل
(یاس)
نگاہ لطف گر اے ساقیء مے خانہ ہو جائے
میں بن جاؤں شرابِ ناب، دل پیمانہ ہو جائے
دلِ مضطر پہ رحم آتا ہے اور ہوتی ہے وحشت بھی
کہیں رسوا نہ کردے اور خود رسوا نہ ہو جائے
کروں ایجاد وہ رنگِ محبت بزم دنیا میں
طریقِ راہ و رسم قیس اک افسانہ ہو جائے
مری مٹی میں اک برقِ تپاں ہے...
یگانہ ایک قادر الکلام شاعر تھے لیکن جب وہ پچھلی صدی کے اوائل میں عظیم آباد سے ہجرت کر کے لکھنؤ آئے تو لکھنؤ والوں نے ان کی بالکل ہی قدر نہ کی۔ اس وقت لکھنؤ والے اپنے برے سے برے شاعر کو بھی باہر والے اچھے سے اچھے شاعر کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دیتے تھے اور یگانہ چونکہ "باہر والے" تھے سو لکھنؤ...
لذّتِ زندگی مُبارک باد
کل کی کیا فکر؟ ہر چہ بادا باد
اے خوشا زندگی کہ پہلوئے شوق
دوست کے دم قدم سے ہے آباد
دل سلامت ہے، دردِ دل نہ سہی
درد جاتا رہا کہ درد کی یاد؟
زیست کے ہیں یہی مزے واللہ
چار دن شاد، چار دن ناشاد
کون دیتا ہے دادِ ناکامی
خونِ فرہاد برسرِ فرہاد
صبر اتنا نہ کر کہ دشمن پر
تلخ...
ادب نے دل کے تقاضے اٹھائے ہیں کیا کیا
ہوس نے شوق کے پہلو دبائے ہیں کیا کیا
اسی فریب نے مارا کہ کل ہے کتنی دور
اس آج کل میں عبث دن گنوائے ہیں کیا کیا
پیامِ مرگ سے کیا کم ہے مژدہ ناگاہ
اسیر چونکتے ہی تلملائے ہیں کیا کیا
پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے
اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا...
خودی کا نشہ چڑھا، آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
پیامِ زیرِ لب ایسا کہ کچھ سنا نہ گیا
اشارہ پاتے ہی انگڑائی لی، رہا نہ گیا
گناہِ زندہ دلی کہیے یا دل آزاری
کسی پہ ہنس لئے اتنا کہ پھر ہنسا نہ گیا
سمجھتے کیا تھے مگر سنتے تھے ترانہ درد
سمجھ میں آنے لگا جب تو پھر سنا...
ایک اور تانے بانے میں ابھی یاس یگانہ کی اس غزل کا ایک شعر پوسٹ کیا تھا. خیال آیا کہ پوری غزل ہی یہاں بھی پوسٹ کر دوں. اور شاید یہ تانا بانا ا ب تک مجھ سے اچھوتا تھا، اس کا ازالہ بھی کر دوں.......
غزل.. یاس یگانہ چنگیزی
کس کی آواز کان میں آئی
دور کی بات دھیان میں آئی
آپ آتے رہے بلاتے رہے...
مجھے دل کی خطا پر یاس شرمانا نہیں آتا
پرایا جرم اپنے نام لکھوانا نہیں آتا
بُرا ہو پائے سرکش کا کہ تھک جانا نہیں آتا
کبھی گمراہ ہو کر راہ پر آنا نہیں آتا
مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
مجھے سر مار کر تیشے سے مر جانا نہیں آتا
دلِ بے حوصلہ ہے اک ذرا سی ٹھیس کا مہماں
وہ آنسو کیا پئے گا...