غزل
زحمتِ سجدہ ہے فضول بُت کدۂ مجاز میں
ہو گی نماز کیا قبول، کعبۂ خانہ ساز میں
دیکھ کے حسنِ خوب و زشت، انجمنِ مجاز میں
ہوش و خرد ہیں مبتلا زحمتِ امتیاز میں
مارے پڑے ہیں بو الہوس جلوہ گہِ مجاز میں
کھائی شکست کوششِ فتخِ طلسمِ راز میں
واہ رے مطمحِ نظر، واہ رے سیرِ مختصر
کعبے سے دیر کا...
میرزایاسؔ، یگانہ، چنگیزیؔ
غزل
آنکھ کا مارا مرے نزدیک آزاری نہیں
اور جو سچ پُوچھو تو اچّھی کوئی بیماری نہیں
کہہ رہا ہُوں قابِلِ مرہم نہیں زخمِ جگر
چارہ سازو! یہ دِل آزاری ہے غم خواری نہیں
پھینک دو آئینۂ دِل کو جو گاہک اُٹھ گئے
اب کہِیں بازار میں اِس کی خریداری نہیں
دیکھتے ہی دیکھتے بدلا...
یاس عظیم آبادی کو کون نہیں جانتا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ یاس کا نام سن کر اکثر لوگوں کا خون جوش مارنے لگتا ہے، دل میں ایک عجیب ہی گستاخ اور بے ادب انسان کا خاکہ بن جاتا ہے۔ مگر کوئی بات نہیں۔ بات تو یہ ہے کہ بد نام اگر ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا؟؟؟ یہ مثال یاس پر بالکل صادق آتی ہے۔ یاس کی بدنامی ہی...
غالب کے اسلوب میں:
پیش خیمہ موت کا خوابِ گراں ہو جائے گا
سیکڑوں فرسنگ آگے کارواں ہو جائے گا
قالبِ خاکی کہاں تک ساتھ دے گا روح کا
وقت آ جانے دو اک دن امتحاں ہو جائے گا
چپکے چپکے ناصحا، پچھلے پہر رو لینے دے
کچھ تو ظالم، چارۂ دردِ نہاں ہو جائے گا
شب کی شب مہماں ہے یہ ہنگامۂ عبرت سرا
صبح تک...
غزلِ
میرزا یاس یگانہ
آئینے میں سامنا جب ناگہاں ہوجائے گا
پردۂ غیرت وہاں بھی درمیاں ہوجائے گا
کس محبت سے جگہ دی، دل نے دردِ عشق کو
کیا خبر تھی تشنۂ خُوں میہماں ہوجائے گا
نیند کے ماتے ٹھہرجا، آنکھ کھُلنے کی ہے دیر
چشمِ حیراں میں سُبک خوابِ گِراں ہوجائے گا
جان دیتے دیر کیا لگتی ہے تیری...
یگانہ ایک قادر الکلام شاعر تھے لیکن جب وہ پچھلی صدی کے اوائل میں عظیم آباد سے ہجرت کر کے لکھنؤ آئے تو لکھنؤ والوں نے ان کی بالکل ہی قدر نہ کی۔ اس وقت لکھنؤ والے اپنے برے سے برے شاعر کو بھی باہر والے اچھے سے اچھے شاعر کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دیتے تھے اور یگانہ چونکہ "باہر والے" تھے سو لکھنؤ...