غزل
خِزاں کے جَور سے واقف کوئی بہار نہ ہو
کسی کا پَیرَہَنِ حُسن تار تار نہ ہو
برنگِ سبزۂ بیگانہ روند ڈالے فلک
مجھے، بہار بھی آئے تو ساز گار نہ ہو
خِزاں کے آتے ہی گلچیں نے پھیر لیں آنکھیں
کسی سے کوئی وَفا کا اُمِیدوار نہ ہو
ٹھہر ٹھہر دلِ وحشی، بہار آنے دے
ابھی سے بہر خُدا اِتنا بے قرار نہ ہو...
غزل
من کہ بر نمی تابم دردِ زیستن تنہا
صبح دم چساں بینم شمعِ انجمن تنہا
ترجمہ :میں کہ جینے کے درد کو تنہا برداشت نہیں کر پاتا، صبح دم کس طرح شمعِ انجمن کو تنہا دیکھوں.
تا کجا اماں یابد از ہجومِ جاں بازاں
گوشہ گیرِ فانوسے ، بہرِ سوختن تنہا
ترجمہ :کب تک جاں بازوں کے ہجوم سے گوشہ گیرِ فانوس...
غزل
دِل لگانے کی جگہ عالَمِ ایجاد نہیں
خواب آنکھوں نے بہت دیکھے، مگر یاد نہیں
آج اسیروں میں وہ ہنگامۂ فریاد نہیں
شاید اب کوئی گُلِستاں کا سَبق یاد نہیں
سَرِ شورِیدہ سلامت ہے، مگر کیا کہیے!
دستِ فرہاد نہیں، تیشۂ فرہاد نہیں
توبہ بھی بُھول گئے عشق میں وہ مار پڑی
ایسے اَوسان گئے ہیں کہ خُدا یاد...
غزل
نِگاہِ بے زباں نے کیا اثر ڈالا برہمن پر
مِٹا ہے پیکرِ بے دست و پا کے، رنگ و روغن پر
رہا تا حشر احسانِ ندامت اپنی گردن پر
بجائے مے، ٹپکتا ہے زُلالِ اشک دامن پر
شرف بخشا دِلِ سوزاں نے مُجھ کو دوست دشمن پر
وہ دِل جِس کا ہر اِک ذرّہ ہے بھاری موم و آہن پر
نجانے پہلی منزِل برقِ سوزاں کی کہاں...
غزل
سر سلامت پِھر بہارِ سنگِ طِفلاں دیکھنا
دِل سلامت لذّتِ صد درد و درماں دیکھنا
جنگِ حُسن و عشق کا، کیا دل شکن نظارہ ہے!
شعلہ و پروانہ کو دست و گریباں دیکھنا
آنکھ بھر کر جاگتے ہیں کوئی دیکھے کیا مجال
خواب میں ممکن ہو شاید رُوئے جاناں دیکھنا
جلوۂ موہوم کیا اِک دُرد کا پیمانہ ہے
ہوگیا آپے سے...
غزل
ہے کوئی ایسا محبّت کے گنہگاروں میں
سجدۂ شُکر بجالائے جو تلواروں میں
دِل سی دولت ہے اگر پاس، تو پِھر کیا پردا
نام لِکھوائیےیوسفؑ کے خرِیداروں میں
رُوح نے عالَمِ بالا کا اِرادہ باندھا
چِھڑ گیا ذکرِ وطن جب وطن آواروں میں
یاسؔ، یگانہؔ، چنگیزیؔ
(1914-16)
مرزاا یاسؔ، یگانہؔ، چنگیزیؔ
بر غزلِ شہیدیؔ
آرہی ہے یہ صدا کان میں ویرانوں سے
کل کی ہے بات کہ آباد تھے دِیوانوں سے
لے چلی وحشتِ دِل کھینچ کے صحرا کی طرف
ٹھنڈی ٹھنڈی جو ہوا آئی بیابانوں سے
پاؤں پکڑے نہ کہِیں کوچۂ جاناں کی زمِیں
خاک اُڑاتا جو نکل آؤں بیابانوں سے
تنکے چُن جا کے کسی کوچے میں او...
غزل
دولتِ دِیدار نے آنکھوں کوروشن کردِیا
مرتبہ عین الیقیں کا آج حاصِل ہو گیا
لے اُڑی خلوت سرا سے تُم کو بُوئے پَیرَہَن
آخر اِک دِن سب حجابِ ناز باطِل ہو گیا
پار اُترے، ڈُوبنے والے محیطِ عِشق کے
حلقۂ گرداب اِک آغوشِ ساحل ہوگیا
صُورت آبادِ جہاں خوابِ پریشاں تھا کوئی
دیکھتے ہی دیکھتےسب، نقشِ...
مِرزا یاس، یگانہ،چنگیزی
بخت بیدار اگر سِلسِلہ جُنباں ہو جائے
شام سے بڑھ کے سَحر دست و گریباں ہوجائے
پڑھ کے دو کلمے اگر کوئی مُسلماں ہوجائے
پھر تو حیوان بھی دو دن میں اِنساں ہو جائے
آگ میں ہو جسے جلنا تو وہ ہندُو بن جائے
خاک میں ہو جسے مِلنا وہ مُسلماں ہو جائے
دُشمن و دوست سے آباد...
غزلِ
مِرزا یاس عظیم آبادی، یگانہ
ازل سے سخت جاں آمادۂ صد اِمتحاں آئے
عذابِ چند روزہ یا عذابِ جاوِداں آئے
کنْول روشن تو ہو دِل کا پیامِ ناگہاں آئے
بَلا سے شامتِ پروانۂ آتش بجاں آئے
قفس بردوش پھرتے ہیں خِزاں آبادِ عالم میں !
اسیرانِ ازل گھر چھوڑ جنگل میں کہاں آئے
بہارستانِ عبرت...
روشن تمام کعبہ و بت خانہ ہو گیا
گھر گھر جمالِ یار کا افسانہ ہو گیا
صورت پرست کب ہوئے معنی سے آشنا
عالم فریب طور کا افسانہ ہو گیا
چشمِ ہوس ہے شیفتۂ حسن ظاہری
دل آشنائے معنیِ بیگانہ ہوگیا
آساں نہیں ہے آگ میں دانستہ کودنا
دیوانہ شوقِ وصل میں پروانہ ہوگیا
کیفیتِ حیات تھی دم بھر کی میہماں
لبریز...
کارگاہِ دنیا کی نیستی بھی ہستی ہے
اک طرف اُجڑتی ہے، ایک سمت بستی ہے
بے دلوں کی ہستی کیا، جیتے ہیں نہ مرتے ہیں
خواب ہے نہ بیداری، ہوش ہے نہ مستی ہے
کیمیائے دل کیا ہے، خاک ہے مگر کیسی؟
لیجیے تو مہنگی ہے، بیچیے تو سستی ہے
خضرِ منزل اپنا ہوں، اپنی راہ چلتا ہوں
میرے حال پر دنیا، کیا سمجھ کے ہنستی...
غالب کے اسلوب میں:
پیش خیمہ موت کا خوابِ گراں ہو جائے گا
سیکڑوں فرسنگ آگے کارواں ہو جائے گا
قالبِ خاکی کہاں تک ساتھ دے گا روح کا
وقت آ جانے دو اک دن امتحاں ہو جائے گا
چپکے چپکے ناصحا، پچھلے پہر رو لینے دے
کچھ تو ظالم، چارۂ دردِ نہاں ہو جائے گا
شب کی شب مہماں ہے یہ ہنگامۂ عبرت سرا
صبح تک...
لذّتِ زندگی مُبارک باد
کل کی کیا فکر؟ ہر چہ بادا باد
اے خوشا زندگی کہ پہلوئے شوق
دوست کے دم قدم سے ہے آباد
دل سلامت ہے، دردِ دل نہ سہی
درد جاتا رہا کہ درد کی یاد؟
زیست کے ہیں یہی مزے واللہ
چار دن شاد، چار دن ناشاد
کون دیتا ہے دادِ ناکامی
خونِ فرہاد برسرِ فرہاد
صبر اتنا نہ کر کہ دشمن پر
تلخ...
خودی کا نشہ چڑھا، آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
پیامِ زیرِ لب ایسا کہ کچھ سنا نہ گیا
اشارہ پاتے ہی انگڑائی لی، رہا نہ گیا
گناہِ زندہ دلی کہیے یا دل آزاری
کسی پہ ہنس لئے اتنا کہ پھر ہنسا نہ گیا
سمجھتے کیا تھے مگر سنتے تھے ترانہ درد
سمجھ میں آنے لگا جب تو پھر سنا...