غزل
مِرزا اسدؔاللہ خاں غالبؔ
نُصرَتُ المُلک بَہادُر ! مُجھے بتلا ،کہ مُجھے
تُجھ سے جو اِتنی اِرادت ہے، تو کِس بات سے ہے؟
گرچہ تُو وہ ہے کہ، ہنگامہ اگر گرم کرے
رونَق ِبزٗمِ مَہ و مہر تِری ذات سے ہے
اور مَیں وہ ہُوں کہ، گر جی میں کبھی غَور کرُوں
غیر کیا، خُود مُجھے نفرت مِری اَوقات سے ہے...
پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے
سینہ جویائے زخم کاری ہے
پھر جگر کھودنے لگا ناخن
آمد فصل لالہ کاری ہے
قبلۂ مقصد نگاہ نیاز
پھر وہی پردۂ عماری ہے
چشم دلال جنس رسوائی
دل خریدار ذوق خواری ہے
وہی صد رنگ نالہ فرسائی
وہی صد گونہ اشک باری ہے
دل ہوائے خرام ناز سے پھر
محشرستان بیقراری ہے...
غزل
مرزا اسداللہ خاں غالبؔ
مُدّت ہُوئی ہے یار کو مہماں کئے ہُوئے
جوشِ قدح سے بزم چراغاں کئے ہُوئے
کرتا ہُوں جمع پھر ، جگرِ لخت لخت کو
عرصہ ہُوا ہے دعوتِ مژگاں کئے ہُوئے
پھر وضعِ احتیاط سے رُکنے لگا ہے دم
برسوں ہُوئے ہیں چاک گریباں کئے ہُوئے
پھر گرمِ نالہ ہائے شرر بار ہے نفَس
مُدّت ہُوئی ہے...
غزلِ
اسدالله خاں غالب
کی وفا ہم سے تو غیر اُس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچّھوں کو بُرا کہتے ہیں
آج ہم اپنی پریشانیِ خاطر اُن سے
کہنے جاتے تو ہیں، پر دیکھیے کیا کہتے ہیں
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، اِنھیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں
دل میں آ جائے ہے، ہوتی ہے جو...
غزلِ
مرزا اسد الله خاں غالب
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں
فرصتِ کاروبارِ شوق کِسے
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں
دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
شورِ سودائے خطّ و خال کہاں
تھی وہ اِک شخص کے تصّور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں
ایسا آساں نہیں لہو رونا
دل میں طاقت، جگر...
غزلِ
اسد الله خاں غالب
تسکِیں کو ہم نہ روئیں جو ذوقِ نظر مِلے
حُورانِ خلد میں تری صورت مگر مِلے
اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعدِ قتل
میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر مِلے
تجھ سے تو کچھ کلام نہیں، لیکن اے ندیم
میرا سلام کہیو اگر نامہ بر مِلے
تم کو بھی ہم دِکھائیں، کہ مجنوں نے کیا کِیا...