اسداللہ خاں غالب

  1. طارق شاہ

    نومیدی ما گردشِ ایّام ندارد

    نومیدیِ ما گردشِ ایام ندارد روزی کہ سیہ شد سحر وشام ندارد۔ ہر رشحہ باندازہِ ہر حوصلہ ریزند میخانہِ توفیق خم و جام ندارد۔ "مرزا غالب" منظوم ترجمہ: مایوسیاں ہیں گردشِ ایّام نہیں ہیں روز ایسے سیاہ ہیں کہ سحر و شام نہیں ہیں ہر قطرہ بہ اندازۂ ہمّت سے ہی ٹپکے میخانہ میں اسبابِ خُم و جام نہیں ہیں...
  2. طارق شاہ

    غالب مرزا اسدؔاللہ خاں :::::تُجھ سے جو اِتنی اِرادت ہے، تو کِس بات سے ہے؟ :::::: Assadullah KhaN Ghalib

    غزل مِرزا اسدؔاللہ خاں غالبؔ نُصرَتُ المُلک بَہادُر ! مُجھے بتلا ،کہ مُجھے تُجھ سے جو اِتنی اِرادت ہے، تو کِس بات سے ہے؟ گرچہ تُو وہ ہے کہ، ہنگامہ اگر گرم کرے رونَق ِبزٗمِ مَہ و مہر تِری ذات سے ہے اور مَیں وہ ہُوں کہ، گر جی میں کبھی غَور کرُوں غیر کیا، خُود مُجھے نفرت مِری اَوقات سے ہے...
  3. طارق شاہ

    غالب مرزا اسدؔاللہ خاں ::::: دیوانگی سے دَوش پہ زنّار بھی نہیں :::::: Assadullah KhaN Ghalib

    غزل مِرزا اسدؔاللہ خاں غالبؔ دیوانگی سے دَوش پہ زنّار بھی نہیں یعنی ہمارے جَیب میں اِک تار بھی نہیں دِل کو نیازِ حسرتِ دِیدار کر چُکے دیکھا تو، ہم میں طاقتِ دِیدار بھی نہیں مِلنا تِرا اگر نہیں آساں، تو سہل ہے ! دُشوار تو یہی ہے کہ، دُشوار بھی نہیں بے عِشق عُمر کٹ نہیں سکتی ہے، اور یاں طاقت...
  4. طارق شاہ

    غالب مرزا اسداللہ خاں غالب :::::بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے؟ ::::Assadullah KhaN Ghalib

    غزل مرزا اسداللہ خاں غا لؔب بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے؟ غلامِ ساقیِ کوثر ہُوں، مجھ کو غم کیا ہے! تمھاری طرز و رَوِش جانتے ہیں ہم، کیا ہے رقیب پر ہے اگر لُطف، تو سِتم کیا ہے؟ کٹے، تو شب کہَیں؛ کاٹے، تو سانپ کہلاوے کوئی بتاؤ کہ، وہ زُلفِ خم بخم کیا ہے؟ لِکھا کرے کوئی، احکامِ طالعِ...
  5. طارق شاہ

    غالب مرزا اسداللہ خاں غالب ::::: نُکتہ چِیں ہے ، غمِ دِل، اُس کو سُنائے نہ بنے ::::Assadullah KhaN Ghalib

    غزلِ مرزا اسداللہ خاں غالب نُکتہ چِیں ہے ، غمِ دِل، اُس کو سُنائے نہ بنے کیا بنے بات ، جہاں بات بنائے نہ بنے میں بُلاتا تو ہُوں اُس کو ، مگر اے جذبۂ دِل اُس پہ بَن جائے کُچھ ایسی، کہ بِن آئے نہ بنے کھیل سمجھا ہے ، کہیں چھوڑ نہ دے ، بُھول نہ جائے کاش! یُوں بھی ہو کہ، بِن میرے ستائے نہ...
  6. طارق شاہ

    غالب مرزا اسداللہ خاں غالب ::::: رونے سے اور عِشق میں بیباک ہوگئے ::::: Mirza Asadullah KhaN Ghalib

    غزلِ مرزا اسداللہ خاں غالب رونے سے اور عِشق میں بیباک ہوگئے دھوئے گئے ہم اِتنے، کہ بس پاک ہوگئے صرفِ بہائے مے ہُوئے آلاتِ میکشی ! تھے یہ ہی دو حِساب سو یُو ں پاک ہوگئے رُسوائے دہر گو ہُوئے آوار گی سے تم بارے طبیعتوں کے تو چالاک ہوگئے کہتا ہے کون نالۂ بُلبُل کو بے اثر پردے میں گُل کے،...
  7. طارق شاہ

    غالب :::: گھر، جب بنا لِیا تِرے در پر، کہے بغیر :::: Mirza Assadullah KhaN Ghalib

    غزلِ مِرزا اسداللہ خاں غالب گھر، جب بنا لِیا تِرے در پر، کہے بغیر جانے گا اب بھی تُو نہ مِرا گھر، کہے بغیر کہتے ہیں، جب رہی نہ مجھے طاقتِ سُخن 'جانوں کسی کے دِل کی میں کیوں کر، کہے بغیر' کام اُس سے آ پڑا ہے کہ، جس کا جہان میں لیوے نہ کوئی نام، ستم گر کہے بغیر جی میں ہی کچھ نہیں ہے...
  8. طارق شاہ

    غالب :::: دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں -- Assadullah KhaN Ghalib

    مرزا اسداللہ خاں غالب دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں دیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں بیٹھے ہیں رہ گزُر پہ ہم، غیر ہمیں اُٹھائے کیوں جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز آپ ہی ہو نظارہ سوز، پردے میں منہ چھپائے کیوں...
  9. طارق شاہ

    غالب :::: وارستہ اس سے ہیں کہ محبّت ہی کیوں نہ ہو -- Assadullah KhaN Ghalib

    مرزا اسداللہ خاں غالب وارستہ اس سے ہیں کہ محبّت ہی کیوں نہ ہو کیجے ہمارے ساتھ، عداوت ہی کیوں نہ ہو چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے رنگ اختلاط کا ہے دل پہ بار، نقشِ محبّت ہی کیوں نہ ہو ہے مجھ کو تجھ سے تذکرۂ غیر کا گلہ ہر چند بر سبیلِ شکایت ہی کیوں نہ ہو پیدا ہوئی ہے، کہتے ہیں، ہر درد کی دوا یوں ہو...
  10. طارق شاہ

    غالب دل ناداں تجھے ہُوا کیا ہے ( مرزا اسداللہ خاں غالب )

    غزل اسداللہ خاں غالب دلِ ناداں تُجھے ہُوا کیا ہے آخر اِس درد کی دوا کیا ہے ہم ہیں مُشتاق اور وہ بیزار یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے میں بھی منْہ میں زبان رکھتا ہوں کاش پُوچھو، کہ مُدّعا کیا ہے جب کہ تُجھ بِن نہیں کوئی موجُود پھر یہ ہنگامہ، اے خُدا کیا ہے یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں غمزہ...
  11. طارق شاہ

    غالب عشق مجھ کو نہیں، وحشت ہی سہی (مرزا اسداللہ خاں غالب)

    غزل مرزا اسداللہ خاں غالب عشق مجھ کو نہیں، وحشت ہی سہی میری وحشت، تِری شہرت ہی سہی قطع کیجے نہ، تعلّق ہم سے کچھ نہیں ہے، توعداوت ہی سہی میرے ہونے میں، ہے کیا رُسوائی؟ اے، وہ مجلس نہیں، خلوت ہی سہی ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے غیر کو تجھ سے محبت ہی سہی اپنی ہستی ہی سے ہو، جو کچھ ہو...
  12. طارق شاہ

    غالب گر نہ اندوہِ شبِ فُرقت بیاں ہوجائیگا (مرزا اسداللہ خاں غالب)

    غزل مرزا اسداللہ خاں غالب گر نہ اندوہِ شبِ فُرقت بیاں ہوجائیگا بے تکلّف داغِ مہہ، مُہرِ دَہاں ہوجائیگا زہرہ گر ایسا ہی شامِ ہجْرمیں ہوتا ہے آب پرتوِ مہتاب، سیلِ خانماں ہو جائیگا لے تو لُوں سوتے میں اُس کے پانْو کا بوسہ مگر ایسی باتوں سے وہ کافر بدگماں ہوجائیگا دل کو ہم صرفِ وفا سمجھے...
Top