غزل
یاسمین حبیب
چاندنی رات میں مہتاب سُلگتا دیکھوں
نیند کی آگ میں اک خواب کو جلتا دیکھوں
آسماں پر کئی تارے ہیں مگر کچھ بھی نہیں
آسماں سے پرے اک نُور دَمکتا دیکھوں
کل، کہ دہلیز پہ ٹھوکر سے سنبھالا تھا جسے
آج اُس شخص کو دریا میں اُترتا دیکھوں
آرزو ہے کسی بچے کے کھلونے کی طرح
دل اُسی کانچ...