پیچھے جانے کتنے دکھ، کتنے افسانے چھوڑ آیا ہوں
کل میں اپنے خواب پرانے، ترے سرہانے چھوڑ آیا ہوں
خود خوابوں کا پیچھا کرتے، میں پردیس میں آ پہنچا ہوں
چبھتی ہوئی کچھ یادیں گھر میں، تجھے ستانے چھوڑ آیا ہوں
آنکھ کھلی تو تمہیں مری تنہائی کا احساس رہے گا
آدھی رات کو میزوں پہ خالی پیمانے چھوڑ آیا ہوں
جان...
وفا مجھ سے نہ ہو پائی؟ چلو میں بے وفا، اچھا!
کیا مجھ میں ہے اس کے بعد بھی باقی رہا اچھا؟
اگر میں چھوڑ جاؤں اور دل کو توڑ جاؤں تو
مجھے دینا جو قاتل کی ہے ہوتی نا سزا، اچھا!
ہاں اِک معصوم لڑکی تھی، کہاں اب کھو گئی ہے وہ؟
مرے پوچھے پہ کہتی ہے، وہ بھولا پن گیا، اچھا!
محبت نامِ وحشت ہے، بڑا دل رکھ...
جب آنکھیں ہو کے بھی پرنم نہیں نکلا تو کیا نکلا
مرے اشکوں سے دل کا غم نہیں نکل تو کیا نکلا
صداقت کے لئے کرنی پڑے گر جنگ باطل سے
جو تو حق کا لئے پرچم نہیں نکلا تو کیا نکلا
ہزارو لوگ اس دنیا میں مرتے ہیں بہر صورت
مگر ایمان پر یہ دم نہیں نکلا تو کیا
ذلیل و خوار ہوکر بزم اہل علم و دانش میں
اگر...
گر فسانہ وزیر پر لکھنا
تو گلوں کے اسیر پر لکھنا
جب کہانی فقیر پر لکھنا
تو ذرا اس حقیر پر لکھنا
جس کی ارض سما ہیں مٹھی میں
بس اسی دست گیر پر لکھنا
بس میں انسان کے نہیں کچھ بھی
جو ہے قادر قدیر پر لکھنا
عشق کی داستاں جو لکھنی ہو
شیریں,لیلی پہ ہیر پر لکھنا
کھیلتے ہیں جو خون کی ہولی
ان...
شیخ جی بیٹھے ہوئے ہیں ایسے فرزانوں کے بیچ
جیسا دیوانہ کوئی بیٹھا ہو دیوانوں کے بیچ
مے کہاں کی، جام کس کا، کون ہے ساغر بکف
محتسب بیٹھے ہوئے ہیں اب تو میخانوں کے بیچ
تو کہ گل پیکر تھا تیرا جسم تھا عینِ بہار
تو بھلا کیوں رہتا ہم سے سوختہ جانوں کے بیچ
کوئی تو بولے کہ یہ دستِ ستم زنجیر ہو...
تو ہی کچھ کھول یہ کیا رازِ نہاں ہے سائیں
ہر نفس زیست کا کیوں شعلہ بجاں ہے سائیں
ہم نے ہر درد کو سمجھا ہے عنایت تیری
تجھ کو اس بات کا احساس کہاں ہے سائیں
تیرے معیار کے قابل تو نہیں ہے پھر بھی
یہ رہا جسم، یہ دل اور یہ جاں ہے سائیں
شہر در شہر یوں آوارہ نہ جانے کب سے
میں تجھے ڈھونڈ...
ہونٹوں پہ تبسم ہے آنکھوں میں نمی ہے
ہم پر دمِ رخصت یہ عنایت بھی بڑی ہے
تم چاہو تو الفت سے گرا سکتے ہو اسکو
یہ ترکِ تعلق کی جو دیوار کھڑی ہے
کیا پوچھتے ہو شہرِ ستم گار کے حالات؟
ہر شے میں تفاوت ہے ہر دل میں کجی ہے
وہ پھول بھی ہو جائیں گے کیا نذر خزاں کی!
جن پھولوں پہ شبنم تری زلفوں کی پڑی ہے...
یہ الگ بات حصارِ در و دیوار نہیں
کنجِ زنداں سے جدا شہرِ ستم گار نہیں
بر سرِ دار بھی کہہ دیں گے جو حق بات ہوئی
ہم کسی ظالم و جابر کے طرفدار نہیں
کیوں ہنسے ہے مری صد چاک قبا پر دنیا
میری محرومی تو محرومئ کردار نہیں
تم جو آؤ تو سرِ راہ بچھا دیں پلکیں
تم نہ آؤ تو ہمیں اس پہ بھی تکرار نہیں...
توڑ کر حلقۂ زنجیرِ گماں بولیں گے
اب یہ دیوانے سرِ بزمِ بتاں بولیں گے
تم سخن فہم ہو سمجھو گے ہمارے دکھ کو
ہم یہاں بھی نہیں بولے تو کہاں بولیں گے!
پیشِ جابر نہ ہو سر خم نہ زباں ہو خاموش
مانند قافلۂ تشنہ لباں بولیں گے
اے ستم گر تری بیداد گری کا قصہ
ہم اگر چپ بھی رہیں اشکِ رواں بولیں گے
ہے یہی...
کیا روگ لگا بیٹھے دل کو اک پل بھی چین قرار نہیں
جینے کی تو چھوڑو خاک جیے مرنے کی بھی رہ ہموار نہیں
پیوستِ جگر ہے تیرِ جفا یہ روگ ہے ایسا جس کی دوا
ہر عیسی نفس کے بس میں نہیں ہر عیسی نفس کا کار نہیں
کب دست ستم دل والوں کے دامن سے جدا دیکھا تم نے
کب اہلِ وفا کی قسمت میں زندان نہیں ہے دار...
تجھے کہتا ہوں نخوت سے کہ بنیادیں ہلا دے گا
تمھارا نام تک بھی صفحہِ ہستی سے مٹا دے گا
تجھے ہے مان اپنے حسن کا لیکن یہ کب تک ہے
یہ عشق اک پل میں تیرا کَبَر مٹی میں ملا دے گا
ہمیں بھی عشق کرنے کا جنوں چھایا لڑکپن میں
نہیں معلوم تھا یہ شوق میرا دل جلا دے گا
میں اپنے من کو سمجھاتا ہوں جب تم ہو...
الف عین
عظیم
خلیل الرحمن
یاسر شاہ
---------
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
----------
مٹی کے ساتھ مل کر مٹی بنے گا انساں
کچھ بھی رہے گا باقی اس کا نہیں ہے امکاں
-----------------
نیکی کرے گا جو بھی جائے گی ساتھ اس کے
دن حشر کے وہی بس ہو گا وہاں پہ شاداں...
اساتذۂ اکرام سے اصلاح کی گزارش ھے
بخش دے گا جسے وہ چاہے گا
جس کو چاہے گا وہ عذاب کرے
جس کو رنج و الم نے گھیرا ہے
خواہشوں سے وہ اجتناب کرے
خود بھی اپنا حساب کر لینا
اس سے پہلے کہ وہ حساب کرے
حق و باطل ہو چکا ہے عیاں
جسے چاہے تو انتخاب کرے
زندگی ایک امتحان ہے دوست
رب تجھے اس میں کامیاب...
بحر- مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف (مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجھ سے مجھے ہے پیار یہ اُس نے کہا مجھے
ہے تجھ پہ اعتبار یہ اُس نے کہا مجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملنا مجھے ہے تم سے ملاقات ہو کبھی
ملنا ہے بار...
سر الف عین ، یاسر شاہ اور دیگر احباب سے اصلاح کی گزارش ہے اور امید ہے کہ اپنے قیمتی وقت اور قیمتی رائے سے نوازیں گے۔ اس بحر میں غزل کہنے کی یہ میری پہلی کاوش ہے۔
خمارِ عشق و محبت اتر گیا کیسے
وفا کا ڈھونگ رچاتے ہیں بے وفا کیسے
فسانۂ غمِ الفت ختم ہوا کیسے
بتاؤں کیا کہ مرا دل بکھر گیا کیسے
وہ...
غزل کی اصلاح فرما کر ممنون و مشکور بناٸیں۔
افسوس کہ وہ شخص میسر نہیں مجھے
وہ ہی تو بھولتا یکسر نہیں مجھے
میں خود کو یاد آ رہا ہوں، یعنی
تیرا خیال بھی اکثر نہیں مجھے
گلہ ہے تو اس بات کا ہے
گلہ بھی تم سے...
میری پہلی غزل۔۔۔اصلاح فرما کر مشکور کریں
خفا ہونے کی عادت ہے یعنی
اس پہ کچھ ندامت ہے یعنی
تیرے بغیر میرا جی نہیں لگتا
مجھے تم سے محبت ہے یعنی
بے رُخی، اس قدر، کیا بات
اس کی وجہ غربت ہے یعنی
آج اُس نے میرا حال پوچھا ہے
آج دل کی عجیب حالت ہے یعنی
کیا کہا؟، زندگی بے معنی ہے
اچھا! محبت سے فرصت...
قطعات
یاسر شاہ
کاٹے نہیںکٹتی ہیں بَرہ کی گھڑیاں
تھامے نہیںتھمتیں اشکوں کی لڑیاں
در عشق کجا شاہ کجا مہر علی
گستاخ اکھیاں اے وی کتھے جا لڑیاں
------------------------------------------------------------------
میرے اندر مجھ سے مخاطب ہے کوئی
مجھ میںگویا مرا طالب ہے کوئی
چھانی جب...