عشق تجھ سے جو ہم نے یار کیا
دل کی حسرت کو آشکار کیا
کیا کیا آپ نے یہ حضرتِ دل
سب سکوں نذرِ اعتبار کیا
تیری صورت کو دیکھ کر ہم نے
تجھ پہ کونین کو نثار کیا
ان کو چوکھٹ کو چوم کر ہم نے
سجدہ شکر بار بار کیا
تم نہ اٹھو ابھی کہ جی بھر کر
ہم نے دیکھا تمہیں نہ پیار کیا
شوق سے پائمالِ ناز کرو
نظر...
یہ کہاں تھی میری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
میری طرح کاش انہیں بھی میرا انتظار ہوتا
یہ ہے میرے دل کی حسرت یہ ہے میرے دل کا ارماں
ذرا مجھ سے ہوتی الفت ذرا مجھ سے پیار ہوتا
اسی انتظار میں ہوں کسی دن وہ دن بھی ہوگا
تجھے آرزو یہ ہوگی کہ میں ہم کنار ہوتا
تیرا دل کہیں نہ لگتا تجھے چین کیونکر آتا
تو...
نشانِ بے نشانی چاہتا ہوں
مکانِ لامکانی چاہتا ہوں
مٹا کر ہستی موہوم اپنی
مآلِ زندگانی چاہتا ہوں
حقیقت رب ارنی کی سمجھ کر
صدائے لن ترانی چاہتا ہوں
خیالِ ماسوا دل سے مٹا کر
عروجِ زندگانی چاہتا ہوں
بروزِ حشر رکھ لینا مری لاج
بس اتنی مہربانی چاہتا ہوں
شہِ بغداد کی چوکھٹ پہ جا کر
میں قسمت آزمانی...