غزل
پرتَوِ ساغرِ صہبا کیا تھا
رات اِک حشر سا برپا کیا تھا
کیوں جوانی کی مجھے یاد آئی
میں نے اِک خواب سا دیکھا کیا تھا
حُسن کی آنکھ بھی نمناک ہُوئی
عِشق کو آپ نے سمجھا کیا تھا
عِشق نے آنکھ جُھکا لی، ورنہ
حُُسن اور حُسن کا پردا کیا تھا
کیوں مجازؔ آپ نے ساغر توڑا
آج یہ شہر میں چرچا...
غزل
رَہِ شوق سے، اب ہَٹا چاہتا ہُوں
کشِش حُسن کی دیکھنا چاہتا ہُوں
کوئی دِل سا درد آشنا چاہتاہُوں
رَہِ عِشق میں رہنُما چاہتا ہُوں
تجھی سے تجھے چِھیننا چاہتا ہُوں
یہ کیا چاہتا ہُوں، یہ کیا چاہتا ہُوں
خطاؤں پہ، جو مجھ کو مائل کرے پھر
سزا ، اور ایسی سزا چاہتا ہُوں
وہ مخمُور نظریں، وہ مدہوش...
غزلِ
مجاؔز لکھنوی
وہ نقاب آپ سے اُٹھ جائے تو کُچھ دُور نہیں
ورنہ میری نگہِ شوق بھی مجبُور نہیں
خاطرِ اہلِ نظر حُسن کو منظوُر نہیں
اِس میں کُچھ تیری خطا دیدۂ مہجوُر نہیں
لاکھ چُھپتے ہو، مگر چُھپ کے بھی مستوُر نہیں
تم عجب چیز ہو ، نزدیک نہیں، دُور نہیں
جراَتِ عرض پہ وہ کُچھ نہیں کہتے،...
بربادِ تمنا پہ عتاب اور زیادہ
ہاں! میری محبت کا جواب اور زیادہ
روئیں نہ ابھی اہلِ نظر حال پہ میرے
ہونا ہے ابھی مجھ کو خراب اور زیادہ
آوارہ و مجنوں ہی پہ موقوف نہیں کچھ
ملنے ہیں ابھی مجھ کو خطاب اور زیادہ
اٹھیں گے ابھی اور بھی طوفاں مرے دل سے
دیکھوں گا ابھی عشق کے خواب اور زیادہ
ٹپکے گا لہو...