غزل
داؔغ دہلوی
دِل گیا اُس نے لِیا ہم کیا کریں
جانے والی چیز کا غم کیا کریں
ہم نے مرکر ہجر میں پائی شفا
ایسے اچّھوں کا وہ ماتم کیا کریں
اپنے ہی غم سے نہیں مِلتی نِجات !
اِس بِنا پر، فِکرِ عالَم کیا کریں
ایک ساغر پر ہے اپنی زندگی !
رفتہ رفتہ اِس سے بھی کم کیا کریں
کرچُکے سب اپنی اپنی...
غزل
داغ دہلوی
کوئی پھرے نہ قول سے، بس فیصلہ ہُوا
بَوسہ ہمارا آج سے، دِل آپ کا ہُوا
اِس دِل لگی میں حال جو دِل کا ہُوا، ہُوا
کیا پُوچھتے ہیں آپ تجاہل سے کیا ہُوا
ماتم، ہمارے مرنے کا اُن کی بَلا کرے
اِتنا ہی کہہ کے چُھوٹ گئے وہ، بُرا ہُوا
وہ چھٹتی دیکھتے ہیں ہَوائی جو چرخ پر
کہتے ہیں مجھ...
غزلِ
داغ دہلوی
کیا کہوں تیرے تغافل نے، حیا نے کیا کِیا
اِس ادا نے کیا کِیا اوراُس ادا نے کیا کِیا
بوسہ لے کر جان ڈالی غیر کی تصویر میں
یہ اثر تیرے لبِ معجز نُما نے کیا کِیا
یاں جگر پر چل گئیں چُھریاں کسی مُشتاق کی
واں خبر یہ بھی نہیں، ناز و ادا نے کیا کِیا
میرے ماتم سے مِرے قاتل کو ناخوش کر...