لحد والے امیدِ فاتحہ اور تجھ کو قاتل سے
کہیں ڈوبی ہوئی کشتی ملا کرتی ہے ساحل سے
یہ تم نے کیا کہا مجھپر زمانہ ہے فدا دل سے
ہزاروں میں وفا والا ملا کرتا ہے دل سے
نہ تھے جب آپ تو یہ حال تھا بیتابیِ دل سے
کبھی جاتا تھا محفل میں کبھی آتا تھا محفل سے
نگاہیں ان کو دیکھیں دیکھ کر یہ کہہ دیا دل سے
جو...
کسی کا نام لو، بے نام افسانے بہت سے ہیں
نہ جانے کس کو تم کہتے ہو دیوانے بہت سے ہیں
جفاؤں کے گِلے تم سے خدا جانے بہت سے ہیں
تری محفل میں ورنہ جانے پہچانے بہت سے ہیں
دھری رہ جائے گی پابندیٔ زنداں، جو اب چھیڑا
یہ دربانوں کو سمجھادو کہ دیوانے بہت سے ہیں
بس اب سوجاؤ نیند آنکھوں میں ہے، کل پھر...
وہ مہتمم ہیں جہاں بھی گئے دیوانے
صراحی جھک گئی اٹھے ادب سے پیمانے
جب آئے تھے مجھے وحشت میں لوگ سمجھانے
نہ جانے آپ کو کیا کیا کہا تھا دنیا نے
سنائے کوئی کہاں تک جنوں کے افسانے
نہ جانے ہو گئے آباد کتنے ویرانے
زمینِ عشق میں ہیں دفن وہ بھی دیوانے
نہ جن کے نام کی شہرت نہ جن کے افسانے
کمالِ حسن...
حیدرؑ کے دل کا چین ہے، جانِ رسولؐ ہے
پہلا یہ نَو نہالِ ریاضِ بتولؑ ہے
آغوشِ مصطفیٰؐ میں حسنؑ ہے بہ صد بہار
نخلِ پیمبریؐ میں امامت کا پھول ہے
(شاعرِ اہلبیتؑ استاد قمر جلالوی)
دیکھو پھر دیکھ لو دیوار کی دَر کی صورت
تم کہیں بھول نہ جاؤ مرے گھر کی صورت
خیر ہو آپ کے بیمارِ شبِ فرقت کی
آج اتری نظر آتی ہے سحر کی صورت
اے کلی اپنی طرف دیکھ کے خاموش ہے کیوں
کل کو ہو جائے گی تو بھی گلِ تر کی صورت
جام خالی ہوئے محفل میں ہمارے آگے
ہم بھرے بیٹھے رہے دیدۂ تر کی صورت
پوچھتا ہوں...
یہ نا ممکن کہ ہو تیرا ستم مجھ سے عیاں کوئی
وہاں فریاد کرتا ہوں نہیں ہوتا جہاں کوئی
شکایت وہ نہ کرنے دیں یہ سب کہنے کی باتیں ہیں
سرِ محشر کسی کی روک سکتا ہے زباں کوئی
عبث ہے حشر کا وعدہ ملے بھی تم تو کیا حاصل
یہ سنتے ہیں کہ پہچانا نہیں جاتا وہاں کوئی
انھیں دیرو حرم میں جب کبھی آواز دیتا ہوں...
حُسن کب عشق کا ممنونِ وفا ہوتا ہے
لاکھ پروانہ مرے شمع پہ، کیا ہوتا ہے
شغل صیّاد یہی صبح و مسا ہوتا ہے
قید ہوتا ہے کوئی، کوئی رِہا ہوتا ہے
جب پتا چلتا ہے خوشبو کی وفا داری کا
پھول جس وقت گلستاں سے جدا ہوتا ہے
ضبط کرتا ہوں تو گھٹتا ہے قفس میں مرا دم
آہ کرتا ہوں تو صیّاد خفا ہوتا ہے
خون ہوتا ہے...
ہزاروں فریاد کر رہے ہیں مگر کسی پر نظر نہیں ہے
وہ محو ہیں آئینے میں ایسے کہ ان کو اپنی خبر نہیں ہے
مریضِ فرقت کا ہے یہ عالم کہ شام سے کچھ خبر نہیں ہے
وہ دیکھنے آئیں گے سحر کو ۔۔۔ یہاں امیدِ سحر نہیں ہے
خوشی تو یہ ہے جواب آیا مآل پیشِ نظر نہیں ہے
لفافہ قاصد سے لے لیا ہے لکھے ہوئے کی خبر نہیں ہے...
وعدۂ وصل کے ایفا سے پشیماں ہو کر
وہ تصور میں بھی آتے ہیں تو پنہاں ہو کر
شوقِ دیدار شہیدوں کو ہے کون ان سے کہے
سیر کو جائیں سوئے گورِ غریباں ہو کر
فاتحہ پڑھ کے مری قبر سے قاتل جو اٹھا
خاک اڑ اڑ کے لپٹنے لگی ارماں ہو کر
میں شبِ وعدہ تصور میں انہیں لے آیا
در پہ بیٹھے ہی رہے غیر نگہباں ہو کر...
دونوں ہیں ان کے ہجر کا حاصل لیے ہوئے
دل کو ہے درد ،درد کو ہے دل لیے ہوئے
دیکھا خدا پہ چھوڑ کہ کشتی کو نا خدا
جیسے خود آگیا کوئی ساحل لیے ہوئے
دیکھو ہمارے صبر کی ہمت نہ ٹوٹ جائے
تم رات دن ستاؤ مگر دل لیے ہوئے
وہ شب بھی یاد ہے کہ میں پہنچا تھا بزم میں !
اور تم اٹھے تھے رونقِ محفل لیے ہوئے
اپنی...
بھلا اپنے نالوں کی مجھ کو خبر کیا شبِ غم ہوئی تھی کہاں تک رسائی
مگر یہ عدو کی زبانی سنا ہے بڑی مشکلوں سے تمہیں نیند آئی
شبِ وعدہ اول تو آتے نہیں تھے جو آئے بھی تو رات ایسی گنوائی
کبھی رات کو تم نے گیسو سنوارے کبھی رات کو تم نے مہندی لگائی
گلہ بے وفائی کا کس سے کریں ہم ہمارا گلہ کوئی سنتا نہیں...
غزل
تاثیر پسِ مرگ دِکھائی ہے وفا نے
جو مجھ پہ ہنسا کرتے تھے، روتے ہیں سرہانے
کیا کہہ دیا چُپ کے سے، نہ معلوُم قضا نے
کروَٹ بھی نہ بدلی تِرے بیمارِ جفا نے
ہستی مِری، کیا جاؤں مَیں اُس بُت کو منانے
وہ ضِد پہ جو آئے تو فَرِشتوں کی نہ مانے
اَوراقِ گُلِ تر، جو کبھی کھولے صبا نے
تحرِیر تھے...
غزل
باغِ عالَم میں رہے شادی و ماتم کی طرح
پُھول کی طرح ہنسے ، رَو دِیئے شبنم کی طرح
شِکوہ کرتے ہو ،خوشی تم سے منائی نہ گئی
ہم سے غم بھی تو منایا نہ گیا غم کی طرح
روز محِفل سے اُٹھاتے ہو تو دِل دُکھتا ہے !
اب نکلواؤ تو پھر حضرتِ آدم کی طرح
لاکھ ہم رِند سہی حضرتِ واعظ ، لیکن
آج تک ہم نے نہ...
غزل
شیخ آخر یہ صُراحی ہے، کوئی خُم تو نہیں
اور بھی، بیٹھے ہیں محِفل میں تمہی تم تو نہیں
ناخُدا ہوش میں آ، ہوش تِرے گُم تو نہیں
یہ تو ساحِل کے ہیں آثار ، تلاطُم تو نہیں
ناز و انداز و ادا ، ہونٹوں پہ ہلکی سی ہنسی !
تیری تصویر میں سب کُچھ ہے تکلّم تو نہیں
دیکھ، انجام محبّت کا بُرا ہوتا ہے...
غزلِ
قمرجلالوی
ختم ، شب قصّہ مختصر نہ ہوئی
شمع گُل ہو گئی، سحر نہ ہوئی
روئِی شبنم، جَلا جو گھر میرا
پُھول کی کم، مگر ہنسی نہ ہوئی
حشر میں بھی وہ کیا مِلیں گے ہمیں
جب مُلاقات عُمر بھر نہ ہوئی
آئینہ دیکھ کے، یہ کیجے شُکر !
آپ کو، آپ کی نظر نہ ہوئی
سب تھے محفِل میں اُنکے محوِ جَمال...
سید شہزاد ناصر صاحب نے گلشن آرا سید کی آواز میں "موسیقی کی دنیا" میں یہ غزل شاملِ محفل کی تو ہمیں معلوم ہوا کہ ابھی تک "پسندیدہ کلام کے زمرے میں یہ خوبصورت موجود ہی نہیں۔ سو استاد قمر جلالوی کی یہ غزل سید شہزاد ناصر صاحب کی محبتوں کی نذر:
مریضِ محبت انھی کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے
مگر ذکر...
خبر اب تو لے بے مروت کسی کی
چلی جان تیری بدولت کسی کی
مجھے حشر میں پیش داور جو دیکھا
ذرا سی نکل آئی صورت کسی کی
خدا کے لئے یوں نہ ٹھکرا کے چلئے
کہ پامال ہوتی ہے تربت کسی کی
ذرا روٹھ جانے پہ اتنی خوشامد
قمرتم بگاڑو گے عادت کسی کی
چونکہ اس کا مقطع بہت مشہور ہے۔ لہذا غالب گمان تھا کہ محفل میں...
بوسۂ خال کی قیمت مِری جاں ٹھہری ہے
چیز کتنی سی ہے اور کِتنی گراں ٹھہری ہے
چھیڑ کر پھر مجھے مصروف نہ کر نالوں میں
دو گھڑی کے لئے صیّاد زباں ٹھہری ہے
آہِ پُر سوز کو دیکھ اے دلِ کمبخت نہ روک
آگ نِکلی ہے لگا کر یہ جہاں ٹھہری ہے
صُبح سے جنبشِ ابرو و مژہ سے پیہم
نہ تِرے تیر رُکے...
چمن روئے ہنسے شبنم بیاباں پر نکھار آئے
اِک ایسا بھی نیا موسم مِرے پروردگار آئے
وہ سر کھولے ہماری لاش پر دیوانہ وار آئے
اِسی کو موت کہتے ہیں تو یارب باربار آئے
سرِ گورِ غریباں آؤ لیکن یہ گزارش ہے
وہاں منہ پھیر کر رونا جہاں میرا مزار آئے
بہا اے چشمِ تر ایسا بھی اِک آنسو ندامت کا
جسے دامن...
تربت کہاں لوحِ سرِ تربت بھی نہیں ہے
اب تو تمھیں پھولوں کی ضرورت بھی نہیںہے
وعدہ تھا یہیں کا جہاں فرصت بھی نہیں ہے
اب آگے کوئی اور قیامت بھی نہیں ہے
اظہارِ محبّت پہ بُرا مان گئے وہ
اب قابلِ اظہار محبّت بھی نہیں ہے
کس سے تمھیں تشبیہہ دوں یہ سوچ رہا ہوں
ایسی تو جہاں میں کوئی صوُرت بھی...