اثرؔ لکھنوی
غزل
بہار ہے تِرے عارض سے لَو لگائے ہُوئے
چراغ لالہ و گُل کے ہیں جِھلمِلائے ہُوئے
تِرا خیال بھی تیری ہی طرح آتا ہے
ہزار چشمکِ برق و شرر چُھپائے ہُوئے
لہُو کو پِگھلی ہُوئی آگ کیا بنائیں گے
جو نغمے آنچ میں دِل کی نہیں تپائے ہُوئے
ذرا چلے چلو دَم بھر کو ، دِن بہت بیتے
بہارِ صُبحِ...
غزل
بُھولے افسانے وَفا کے یاد دِلواتے ہُوئے
تم تو، آئے اور دِل کی آگ بھڑکاتے ہُوئے
موجِ مَے بَل کھا گئی، گُل کو جمَائی آ گئی
زُلف کو دیکھا جو اُس عارض پہ لہراتے ہُوئے
بے مروّت یاد کر لے، اب تو مُدّت ہو گئی !
تیری باتوں سے دِلِ مُضطر کو بہلاتے ہُوئے
نیند سے اُٹھ کر کسی نے اِس طرح آنکھیں مَلِیں...
غزل
(شاعرِ فصیح اللسان ، ناظمِ بلیغ البیان، شمس العلما جناب مولوی نواب سید امداد امام صاحب بہادر رئسِ اعظم پٹنہ المتخلص بہ اثر لکھنوی )
غم نہیں مجھ کو جو وقتِ امتحاں مارا گیا
خوش ہوں تیرے ہاتھ سے اے جانِ جاں مارا گیا
تیغِ ابرو سے دلِ عاشق کو ملتی کیا پناہ
جو چڑھا مُنہ پر اجل کے...