اثرؔ لکھنوی
غزل
بہار ہے تِرے عارض سے لَو لگائے ہُوئے
چراغ لالہ و گُل کے ہیں جِھلمِلائے ہُوئے
تِرا خیال بھی تیری ہی طرح آتا ہے
ہزار چشمکِ برق و شرر چُھپائے ہُوئے
لہُو کو پِگھلی ہُوئی آگ کیا بنائیں گے
جو نغمے آنچ میں دِل کی نہیں تپائے ہُوئے
ذرا چلے چلو دَم بھر کو ، دِن بہت بیتے
بہارِ صُبحِ...
غزل
بُھولے افسانے وَفا کے یاد دِلواتے ہُوئے
تم تو، آئے اور دِل کی آگ بھڑکاتے ہُوئے
موجِ مَے بَل کھا گئی، گُل کو جمَائی آ گئی
زُلف کو دیکھا جو اُس عارض پہ لہراتے ہُوئے
بے مروّت یاد کر لے، اب تو مُدّت ہو گئی !
تیری باتوں سے دِلِ مُضطر کو بہلاتے ہُوئے
نیند سے اُٹھ کر کسی نے اِس طرح آنکھیں مَلِیں...
غزلِ
اپنا چمَن نہیں تو خِزاں کیا، بہار کیا
بُلبُل ہو نغمہ سنج سرِشاخسار کیا
مِنّت پذیرِ شوق، نہ مانوُس اِضطراب
تجھ کو قرار آئے دِلِ بیقرار کیا
غفلت کا ہے یہ حال، کہ اب تک خبر نہیں
اِس انجُمن میں کیا ہے نہاں، آشکار کیا
ناآشنائے راز ہیں سرگشتگانِ ہوش
پُوچھے کوئی خِزاں سے الگ ہے بہار کیا...