غزلِ
بیکل اُتساہی
حُسن جلوَہ نہیں عشق کا حاصل تنہا
کتنے جلوؤں کو سمیٹے ہے مِرا دل تنہا
کارواں چھُوٹ گیا رات کے سنّاٹے میں
رہ گئی ساتھ مِرے حسرتِ منزل تنہا
عزْم مُحکم ہو تو ہوتی ہیں بَلائیں پسپا
کتنے طُوفاں کو پلٹ دیتا ہے ساحل تنہا
حُسن ہنگامۂ بازار میں مصروف رہا
عشق تو چُپ ہے...