شیشے کی صداؤں سے بندھا ایک سماں تھا
میں منتظر ِجنبشِ انگشتِ مغاں تھا
پیہم جو تبسم مرے چہرے سے عیاں تھا
وہ ہی دلِ صد چاک پہ اک کوہِ گراں تھا
نومیدئ عالم ہوئی مہمیز جنوں کو
اوپر سے مہر بان کفِ کوزہ گراں تھا
اسکندر و پرویز تو ویرانے میں گم تھے
پر تربتِ درویش پہ میلے کا سماں تھا
کی جس کے لیے...