اویس ضمیر

  1. کاشفی

    تو مری جان، میرا ارماں بھی - اویس ضمیر

    غزل (اویس ضمیر) تو مری جان، میرا ارماں بھی اس لیے پھرتا ہوں پریشاں بھی روشنی کے سفر میں دیکھے ہیں ظلمتوں کے بہت سے طوفاں بھی تھے تو تم ہی سبب غمِ دل کا پھر بنے دردِ دل کا درماں بھی ہے بچا کیا غریب کا اب جو لوٹنے آئے اس کا ایماں بھی شیخ پر میں یقین کر لیتا ہوتا اِس کا ذرا سا...
  2. کاشفی

    میں تو اِک دائمی سفر میں ہوں - اویس ضمیر

    غزل (اویس ضمیر) جب تلک پیکرِ بشر میں ہوں منقسم قدرِ خیر و شر میں ہوں در بدر ٹھوکریں میں کھا کر بھی دیکھ تیری ہی رہ گذر میں ہوں شعلہ بھڑکے تو روشنی مجھ سے راکھ کا ڈھیر ہو، شرر میں‌ ہوں کچھ یقیناً نشے میں بک بیٹھا اب کھٹکتا جو ہر نظر میں ہوں کھویا کھویا سا میں جو رہتا ہوں...
Top