غزلِ
اوسط جعفری
جِنہیں صُبح تک تھا جلنا، سرِ شام بُجھ گئے ہیں
وہ چراغ کیا بُجھے ہیں، در و بام بُجھ گئے ہیں
ہُوا ظُلم جاتے جاتے، شبِ غم ٹھہر گئی ہے
جو سحر سے آ رہے تھے، وہ پیام بُجھ گئے ہیں
نہ رہا کوئی شناسا، کہ جو حال چال پُوچھے
پسِ پردہ تھے جو روشن، وہ سلام بُجھ گئے ہیں
ذرا آ کے دیکھے میری...