لو! اپنی خواہشوں کو آخر دبا دیا ہے
سوچوں پہ اپنی ہم نے پہرہ لگا دیا ہے
سب خواب اپنے ہم نے کونے میں رکھ دیئے ہیں
جتنے خیال آئے سب کو مٹا دیا ہے
تاکہ یہ دنیا سمجھے خوش باش رہ رہے ہیں
زخموں کو اپنے ہم نے دیکھو چھپا دیا ہے
دردوں کو کہہ دیا ہے چپ چاپ بیٹھ جائیں
آنکھوں کے پانیوں کو صحرا بنا دیا...
لو! اپنی خواہشوں کو آخر دبا دیا ہے
سوچوں پہ اپنی ہم نے پہرہ لگا دیا ہے
سب خواب اپنے ہم نے کونے میں رکھ دیئے ہیں
جتنے خیال آئے سب کو مٹا دیا ہے
تاکہ یہ دنیا سمجھے خوش باش رہ رہے ہیں
زخموں کو اپنے ہم نے دیکھو چھپا دیا ہے
دردوں کو کہہ دیا ہے چپ چاپ بیٹھ جائیں
آنکھوں کے پانیوں کو صحرا بنا دیا...
ترے کوچے میں جا کے دیکھتے ہیں
مقدر آزما کے دیکھتے ہیں
پڑی ہیں جتنی بھی ماضی میں یادیں
وہ سب واپس بلا کے دیکھتے ہیں
تمہاری اور میری روح کا پھر سے
وہ دستر خواں لگا کے دیکھتے ہیں
تری آنکھوں کے آنگن میں ہے کیا کیا
ذرا نظریں جما کے دیکھتے ہیں
بچھے ہیں راستے میں جو بھی کانٹے
چلو ان کو ہٹا کے...
سوچ کوئی بھی نہیں ہوتی عمل سے باہر
تم بھی آ جاؤ ذرا کنجِ غزل سے باہر
زندگی بکھری ہے پیچیدہ گزرگاہوں میں
اور ہم رہتے رہے دشت و جبل سے باہر
سوہنیوں اور چنابوں میں ہے نسبت اب بھی
اور سسیاں بھی نہیں ہیں ابھی تھل سے باہر
اپنی حسرت کی منادی نہ کرو لوگوں میں
اب جہانگیر بھی ہے شیش محل سے باہر
تا ابد...