اختر ضیائی

  1. شیزان

    تھک کے ہونے لگے نڈھال تو پھر؟۔ اختر ضیائی

    تھک کے ہونے لگے نڈھال تو پھر؟ بڑھ گیا عشق کا وبال تو پھر! جسم کیا روح تک ہوئی گھائل ہو سکا گر نہ اندمال تو پھر؟ جس کو رکھا ہے شوق سے مہماں کر گیا گھر ہی پائمال تو پھر! ہجر تو مستقل اذیت ہے اس نے جینا کیا محال تو پھر! بھول جانا تو کیا عجب اس کا روز آنے لگا خیال تو پھر! رازداں ہی تو ہے بھروسا...
  2. شیزان

    درد و درمان خوبصورت ہے۔ اختر ضیائی

    درد و درمان خوبصورت ہے کل کا پیمان خوبصورت ہے جس کے ملنے کی اب نہیں اُمید اس کا ارمان خوبصورت ہے ساتھ دیتا ہے وحشتِ دل کا چاکِ دامان خوبصورت ہے حُسن کردار سے ہے ناواقف کتنا نادان خوبصورت ہے جھوٹ گو مصلحت نواز سہی سچ کی پہچان خوبصورت ہے کاش گھر بھی اسی طرح ہوتا جیسا مہمان خوبصورت ہے اک غزل...
  3. شیزان

    جُنوں پسند ہوں شوریدگی سے مطلب ہے۔ اختر ضیائی

    جُنوں پسند ہوں شوریدگی سے مطلب ہے نہ غم سے کام، نہ مجھ کو خوشی سے مطلب ہے مشاہدات کی تلخی سے رو بھی دیتا ہوں میں گل نہیں جسے خندہ بہی سے مطلب ہے کچھ ایسے لوگ ہیں جن کو ہے سرخوشی کی تلاش ہمیں علاجِ غمِ زندگی سے مطلب ہے وہ اور ہوں گے جنہیں تیری ذات سے ہے غرض مجھے تو دوست تیری دوستی سے مطلب ہے...
  4. شیزان

    ظلمتوں کے پروردہ روشنی سے ڈرتے ہیں۔ اختر ضیائی

    ظلمتوں کے پروردہ روشنی سے ڈرتے ہیں موت کے یہ سوداگر زندگی سے ڈرتے ہیں علم ہی وہ طاقت ہے، خوف کی جو دشمن ہے مصلحت کے خوشہ چیں آگہی سے ڈرتے ہیں دشمنوں کی نیت تو ہم پہ خوب ظاہر تھی پر قریب لوگوں کی دوستی سے ڈرتے ہیں جن کو فرض کی خاطر راستی پہ مرنا ہو کچھ بھی کر گزرنا ہو، کب کسی سے ڈرتے ہیں ...
  5. شیزان

    بےکلی میں بھی سدا روپ سلونا چاہے۔ اختر ضیائی

    بےکلی میں بھی سدا روپ سلونا چاہے دل وہ بگڑا ہوا بالک جو کھلونا چاہے حسن معصوم ہے پر خواب خزانوں کے بنے کبھی ہیرے، کبھی موتی، کبھی سونا چاہے تجھ سے بچھڑا ہے تو گھائل کی عجب حالت ہے بیٹھے بیٹھے کبھی ہنسنا، کبھی رونا چاہے لاکھ بہلاؤ بھلے وقت کے گلدستوں سے تلخ ماضی تو سدا خار چبھونا چاہے کھلی...
  6. شیزان

    ٹائپنگ مکمل اختر ضیائی ۔۔۔ منتخب کلام

    کشتِ جاں جس کے ترشح کو ترستی ہے ابھی اب وہ بادل نہ کبھی لوٹ کے پھر آئے گا اختر ضیائی
  7. شیزان

    چہرے کی دھوپ، زُلف کے سائے سمٹ گئے۔ اختر ضیائی

    چہرے کی دھوپ، زُلف کے سائے سمٹ گئے پل کی جھپک میں وصل کے ایام کٹ گئے اور مصلحت شناس تیرا کُھل گیا بھرم! لے ہم ہی تیرے پیار کے رستے سے ہٹ گئے پاسِ ادب کہ پاسِ مرّوت کہیں اسے اکثر لبوں تک آئے گِلے اور پلٹ گئے پائی نہ پھر بتوں نے وہ یکسانی الست رنگوں میں بٹ گئے کبھی شکلوں میں بٹ گئے گلشن میں چل...
  8. شیزان

    رنگوں کو، خوشبوؤں کو ترا نام بخش دوں۔ اختر ضیائی

    رنگوں کو، خوشبوؤں کو ترا نام بخش دوں جی چاہتا ہے زیست کو انعام بخش دوں ڈسنے لگی ہے تلخ حقائق کی تیز دھوپ چاہو اگر تو سایۂ اوہام بخش دوں الجھے تخیلات کی ترسیل کے لئے اظہار کو سہولتِ ابہام بخش دوں بہتر ہے ہمرہی میں مصائب کا تجزیہ! آغاز کو نہ تہمتِ انجام بخش دوں ایسا نہ ہو کہیں دلِ بےچین ایک دن...
Top