فیصلہ صبح کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔
(اختر حسین جعفری)
رات، تصویر، منتشر چہرہ
چھت گری ہے کہ آئنہ ٹوٹا
کوئی پتھر ہوا کے ہاتھ میں تھا
راستہ خود ہو رہنما جیسے
تیز قدموں سے یوں چلا جیسے
اندھا لاٹھی میں آنکھ رکھتا تھا
باغ، جلسہ، افق افق نعرہ
شور، تقریر، قہقہہ، نوحہ
چاند شاید ابھی نہیں نکلا
بلب، فٹ پاتھ،...
سرشکِ خوں، رُخِ مضموں پہ چلتا ہے تو اک رستہ
نکلتا ہے
ندی دریا پہ تھم جائے
لہو نقطے پہ جم جائے تو عنوانِ سفر ٹھہرے
اسی رستے پہ سرکش روشنی تاروں میں ڈھلتی ہے
اسی نقطے کی سُولی پر پیمبر بات کرتے ہیں
مجھے چلنا نہیں آتا
شبِ ساکن کی خانہ زاد تصویرو! گواہی دو
فصیلِ صبحِ ممکن پر مجھے چلنا نہیں آتا...
وہ جو پیش و پس میں تھی روشنی
سرِسطرِ شوق رہی نہیں
یہ چراغ کیسا بجھا دیا، شبِ منتقم میرے سامنے
ابھی اس حرم کے طواف میں تھے قدم مرے
مجھے کیوں ہو دعوٰئ ھمسری کہ بہت فرو تھے عَلَم مِرے ابھی اس کے منبروبام سے
پسِ دوپہر یہ عجیب قحطِ ہوا پڑا
رگِ ساز میں کوئی پارہِ دل لخت لخت اٹک گیا تو فغاں کی شکل...
اختر حسین جعفری کی طویل نظم "آئینہ خانہ" سے ایک اقتباس
اٹھائے کون حجاباتِ شاہد و مشہود
کہاں کسی پہ طلسم ِ پس ِ نگاہ کھلا
بتائے کون کہ کاغذ کی سطح ِ خالی پر
بغیرحرف بھی نقطہ وجود رکھتا ہے
وہ قتل گاہ کہاں ہے جہاں پہ لفظوں نے
فراق ِ حسن ِ تمنّا میں خود کشی کرلی
ہجوم ِ راہگزر منتظر...
نوحہ
اب نہیں ہوتیں دعائیں مستجاب
اب کسی ابجد سے زندانِ ستم کھلتے نہیں
سبز سجّادوں پہ بیٹھی بیبیوں نے
جس قدر حرفِ عبادت یاد تھے، پَو پھٹے تک انگلیوں پر گن لیے
اور دیکھا ___ رحل کے نیچے لہو ہے
شیشئہ محفوظ کی مٹی ہے سرخ
سطر ِ مستحکم کے اندر بست و در باقی نہیں
یاالٰہی مرگِ یوسف کی...