غزل
ہر قدم اک نئے آزار پہ رکھ دیتا ہوں
خار سے بچتا ہوں انگار پہ رکھ دیتا ہوں
پھول پھینکے کوئی دیوار کے پیچھے سے اگر
پھر اٹھا کر اسے دیوار پہ رکھ دیتا ہوں
جنگجو ایسا کہ خود ہارتا ہوں ہر بازی
اور الزام میں تلوار پہ رکھ دیتا ہوں
وہ جو اک بار چبھا تھا کبھی دل میں میرے
دل کو ہر بار...
غزل
کچھ نہیں تھا پہ یوں لگتا ہے کہ اب کچھ تو ہے
بے سبب اُس کو یوں تکنے کا سبب کچھ تو ہے
کچھ تو ہے جو مجھے بے چین کیے دیتا ہے
اس کے عارض ہیں ، کہ آنکھیں ہیں، کہ لب،کچھ تو ہے
میں نہیں کہتا مجھے اس سے محبت ہے مگر
جو بھی ہوتا ہے محبت میں وہ سب کچھ تو ہے
ایک آواز کہ صحرا سے بلاتی ہے...
غزل
سوکھے ہوئے کچھ پھول بھی گلدان میں رکھنا
ہے حسن کا انجام یہی دھیان میں رکھنا
پھر شوق سے مجرم مجھے گرداننا لیکن
انصاف کی مسند کھلے میدان میں رکھنا
ایسا نہ ہو پڑ جائے کہیں میری ضرورت
لازم نہ سہی پر اسے امکان میں رکھنا
حیرت کدہِ زیست سے کترا کے گزرنا
ہر عکس مگر دیدہِ حیران میں...
غزل
دشت میں پھر کسی مجنوں کی پزیرائی ہوئی
ہم نے صحراؤں میں دیکھی ہے بہار آئی ہوئی
زندگی تھی ہی نہیں پاس تو کیا لے جاتی
موت بھی گزری مرے پاس سے گھبرائی ہوئی
جو زمیں پاؤں سے ٹکرائی وہ گردش میں رہی
جو ہوا گزری مرے سر سے وہ سودائی ہوئی
کوئی گن ہے نہ کوئی حسن و کشش ہے مجھ میں
اور...
غزل
وسوسے جب بھی مرے د ل کو ڈرانے لگ جائیں
میری آنکھیں مجھے پھر خوا ب دکھانے لگ جائیں
اک ترے درد کی دولت ہی بہت ہے مجھ کو
میں نے کب چاہا مرے ہاتھ خزانے لگ جائیں
قصؑہِ درد سنا تم نے بہ اندازِ دگر
ورنہ پتھر جوسنیں اشک بہانے لگ جائیں
اپنے گھر میں رہو تم ہم چلے صحرا کی طرف
تم بھی...
غزل
جو کہہ دیتا ، مرا ایثار ج۔۔۔اتا
جو چپ رہتا تو بازی ہار ج۔۔اتا
گرا سکتا تھا دیواریں تو ساری
کسی کا س۔۔۔ایہِ دیوار ج۔۔۔اتا
مرے ہاتھوں میں بھی کچا گھڑا تھا
تو پھر میں کیسے دریا پار ج۔۔۔اتا
نہ ہوتا دل اگر اس۔۔۔۔ کا س۔۔۔۔مندر
تو میرا ڈوبنا بیکار ج۔۔۔اتا
حقیقت بھی بتا سکتا تھا سب کو...
غزل
ابھی تو گردشِ دوراں سے بات کرنی ہے
پھر اس کے بعد دل و جاں سے بات کرنی ہے
تم اپنے شہر کی ساون رتوں سے بات کرو
مجھے تو ابرِ گریزاں سے بات کرنی ہے
نکلنا ایک تحّیر سے ہے مجھے پہلے
پھر ایک دیدہِ حیراں سے بات کرنی ہے
کسی نے پھول مجھے بے حساب بھیجے ہیں
سو مجھ کو تنگیِ داماں سے بات...