نقدِ جاں لے کے چلو ، دیدہ ء تر لے کے چلو
گھر سے نکلو تو یہی رختِ سفر لے کے چلو
سامنے سرورِ کونین کا دروازہ ہے
کوئی تو بات بہ عنوانِ دگر لے کے چلو
نعت گوئی کی تمنا ہے تو اس کوچے میں
رومی و جامی و قدسی کا اثر لے کے چلو
حسن کہتا ہے رہ و رسم ادب مانع ہے
شوق کہتا ہے عقیدت کے ثمر لے کے چلو
ہم...
گزرا وہ جدھر سے وہ ہوئی راہ گزر نُور
اُس نُورِ مجسم کی ہے ہر شام و سحر نُور
لب نُور دہاں نُور زباں نُور بیاں نُور
دل نُور جگر نُور جبیں نُور نظر نُور
گیسو کی ضیا نُور عمامہ کی چمک نُور
اُس آیہِ رحمت کی ہے ہر زیر و زبر نُور
سر تا بقدم نُور عیاں نُور نہاں نُور
ہر سمت تری نُور اِدھر نُور اُدھر...