غزل
عزیز حامد مدنی
ثباتِ غم ہے محبّت کی بے رُخی آخر
کسی کے کام تو آئی، یہ زندگی آخر
کوئی بتاؤ کہ، ہے بھی ، تو اس قدر کیوں ہے؟
ہوا کو میرے گریباں سے دشمنی آخر
تری قبا، تری چادر کا ذکر کس نے کیا
مگرفسانہ ہوئی، بات ان کہی آخر
ترے خیال نے سو رُخ دیے تصوّر کو
ہزار شیوہ تھی تیری سپردگی آخر...
غزل
عزیز حامد مدنی
سنبھل نہ پائے تو تقصیرِ واقعی بھی نہیں
ہر اِک پہ سہل کچھ آدابِ مے کشی بھی نہیں
اِدھر اُدھر سے حدیثِ غمِ جہاں کہہ کر
تِری ہی بات کی اور تیری بات کی بھی نہیں
وفائے وعدہ پہ دِل نکتہ چیں ہے وہ خاموش
حدیثِ مہر و وفاآج گفتنی بھی نہیں
بِکھر کے حُسنِ جہاں کا نظام کیا ہوگا
یہ...
غزل
عزیز حامد مدنی
کیفیت اُس کی قبا میں وہ قدِ بالا سے تھی
گفتگو ساحِل کی اِک ٹھہرے ہُوئے دریا سے تھی
زاویے کیا کیا دِیے تھے تیرے رُخ کو شوق نے
انجمن سی انجمن تھی اور دلِ تنہا سے تھی
جادۂ بے میل و منزل وقت کا اِک خواب تھا
رہ گُزارِ حال بھی مِلتی ہُوئی فردا سے تھی
وہ بھی سنگِ محتسب کی نذر...