غزل
قِصّے ہیں خموشی میں نِہاں اور طرح کے
ہوتے ہیں غَمِ دِل کے بَیاں اور طرح کے
تھی اور ہی کُچھ بات، کہ تھا غم بھی گوارا
حالات ہیں اب درپئے جاں اور طرح کے
اے را ہروِ راہِ وفا ! دیکھ کے چلنا
اِس راہ میں ہیں سنگِ گراں اور طرح کے
کھٹکا ہے جُدائی کا ، نہ ملنے کی تمنّا
دِل کو ہیں مِرے وہم و گُماں...
غزل
پردے میں ہر آواز کے شامِل تو وہی ہے
ہم لا کھ بدل جائیں، مگر دِل تو وہی ہے
موضوعِ سُخن ہے وہی افسانۂ شِیرِیں !
محِفل ہو کوئی، رَونَقِ محِفل تو وہی ہے
محسُوس جو ہوتا ہے، دِکھائی نہیں دیتا
دِل اور نظر میں حدِ فاصِل تو وہی ہے
ہر چند تِرے لُطف سے محرُوم نہیں ہم
لیکن دلِ بیتاب کی مُشکل تو وہی...
چھوٹی رات، سفر لمبا تھا
میں اِک بستی میں اُترا تھا
سُرماندی کے گھاٹ پہ اُس دن
جاڑے کا پہلا میلا تھا
بارہ سکھیوں کا اِک جُھرمٹ
سیج پہ چکّر کاٹ رہا تھا
نئی نکور کنواری کلیاں
کورا بدن کورا چولا تھا
دیکھ کے جوبن کی پُھلواری
چاند گگن پر شرماتا تھا
پیٹ کی ہری بھری کیاری میں
سُرخ مُکھی کا...
غزل
سُناتا ہے کوئی بُھولی کہانی
مہکتے مِیٹھے دریاؤں کا پانی
یہاں جنگل تھے آبادی سے پہلے
سُنا ہے میں نے لوگوںکی زبانی
یہاں اِک شہر تھا ،شہرِ نگاراں !
نہ چھوڑی وقت نے اُس کی نشانی
مَیں وہ دِل ہُوں دبِستانِ الَم کا
جسے رَوئے گی صدیوں شادمانی
تصوّر نے اُسے دیکھا ہے اکثر
خِرَد کہتی ہے جس کو...
غزل
پھر لہُو بول رہا ہے دِل میں
دَم بہ دَم کوئی صدا ہے دِل میں
تاب لائیں گے نہ سُننے والے
آج وہ نغمہ چِھڑا ہے دِل میں
ہاتھ ملتے ہی رہیں گے گُل چِیں
آج وہ پُھول کِھلا ہے دِل میں
دشت بھی دیکھے ، چمن بھی دیکھا
کُچھ عجب آب و ہَوا ہے دِل میں
رنج بھی دیکھے، خوشی بھی دیکھی
آج کُچھ درد نیا ہے دِل...
غزل
رات ہم نے بھی یُوں خوشی کر لی
دِل جَلا کر ہی روشنی کر لی
آ تے جا تے ر ہا کر و صاحب!
آنے جانے میں کیوں کمی کر لی
کانٹے دامن تو تھام لیتے ہیں
کیسے پُھولوں سے دوستی کر لی
ہم نے اِک تیری دوستی کے لئے
ساری دُنیا سے دُشمنی کر لی
تیری آنکھوں کی گہری جِھیلوں میں
غرق ہم نے یہ زندگی کر لی
ہم نے...
ناصؔرکاظمی
حُسن کہتا ہے اِک نظر دیکھو
دیکھو اور آنکھ کھول کر دیکھو
سُن کے طاؤسِ رنگ کی جھنکار
ابر اُٹھّاہے جُھوم کر دیکھو
پُھول کو پُھول کا نِشاں جانو
چاند کو چاند سے اُدھر دیکھو
جلوۂ رنگ بھی ہے اِک آواز
شاخ سے پُھول توڑ کر دیکھو
جی جلاتی ہے اوس غُربت میں
پاؤں جلتے ہیں گھاس پر دیکھو...
نشاطِ خواب
ناصؔر کاظمی
ہر کُوچہ اِک طلِسم تھا، ہر شکل موہنی
قصّہ ہے اُس کے شہر کا یارو شُنیدنی
تھا اِک عجیب شہر درختوں کے اوٹ میں
اب تک ہے یاد اُس کی جگا جوت روشنی
سچ مُچ کا اِک مکان، پرستاں کہیں جسے
رہتی تھی اُس میں ایک پری زاد پدمنی
اُونچی فصِیلیں، فصِیلوں پہ بُرجیاں
دِیواریں رنگِ...
غزل
شہر سنسان ہے کدھر جائیں
خاک ہو کر کہیں بکھر جائیں
رات کتنی گزُر گئی لیکن
اتنی ہمّت نہیں ، کہ گھر جائیں
یوں تِرے دھیان سے لرزتا ہُوں
جیسے پتّے ہوا سے ڈر جائیں
اُن اجالوں کی دُھن میں پھرتا ہُوں
چَھب دِکھاتے ہی جو گزُر جائیں
رین اندھیری ہے اور کنارہ دُور
چاند نکلے تو، پار اُتر جائیں...
غزل
شعاعِ حُسن تِرے حُسن کو چھپاتی تھی
وہ روشنی تھی کہ صُورت نظر نہ آتی تھی
کسے مِلیں، کہاں جائیں کہ رات کالی ہے
وہ شکل ہی نہ رہی ، جو دِیے جلاتی تھی
وہ دن توتھے ہی حقیقت میں عمرکا حاصل
خوشا وہ دن ، کہ ہمیں روز موت آتی تھی
ذرا سی بات سہی ، تیرا یاد آجانا !
ذرا سی بات بہت دیر تک رُلاتی...
غزلِ
صدائے رفتگاں پھر دِل سے گزُری
نگاہِ شوق، کِس منزِل سے گزُری
کبھی روئے ، کبھی تُجھ کو پُکارا
شبِ فُرقت بڑی مُشکل سے گزُری
ہوائے صُبْح نے چونْکا دِیا، یُوں !
تِری آواز جیسے دِل سے گزُری
مِرا دل خُوگرِ طُوفاں ہے، ورنہ !
یہ کشتی بارہا ساحِل سے گزُری
ناصرکاظمی
غزل
ناظم کاظمی
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ لُطفِ زندگی کم ہے
غمِ دل حد سے بڑھ کر ہے، میّسراب خوشی کم ہے
مُسلسَل دِل کی بے چینی کو کیا کہتے ہیں دل والو؟
تمھیں معلوم ہو شاید، مجھے تو آگہی کم ہے
اب اِس کے بعد، جِسْم و جاں جلانے سے بھی کیا حاصل !
چراغوں میں لہُو جلتا ہے پھر بھی روشنی کم ہے...
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
آج مشکل تھا سنبھلنا اے دوست
تو مصیبت میں عجب یاد آیا
دن گزارا تھا بڑی مشکل سے
پھر تیرا وعدہ شب یاد آیا
تیرا بھولا ہوا پیماِن وفا
مر رہیں گے اگر اب یاد آیا
پھر کئی لوگ نظر سے گزرے
پھر...
کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر
کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے
گزر گئی جرس گل اداس کرکے مجھے
میں سو رہا تھا کسی یاد کے شبستاں میں
جگا کے چھوڑ گئے قافلے سحر کے مجھے
میں تیرے درد کی تغیانیوں میں ڈوب گیا
پکارتے رہے تارے ابھر ابھر کے مجھے
تیرے فراق کی راتیں کبھی نہ بھولیں گی
مزے...