کاظمی

  1. طارق شاہ

    ناصر کاظمی ::::::قِصّے ہیں خموشی میں نہاں اور طرح کے :::::: Nasir Kazmi

    غزل قِصّے ہیں خموشی میں نِہاں اور طرح کے ہوتے ہیں غَمِ دِل کے بَیاں اور طرح کے تھی اور ہی کُچھ بات، کہ تھا غم بھی گوارا حالات ہیں اب درپئے جاں اور طرح کے اے را ہروِ راہِ وفا ! دیکھ کے چلنا اِس راہ میں ہیں سنگِ گراں اور طرح کے کھٹکا ہے جُدائی کا ، نہ ملنے کی تمنّا دِل کو ہیں مِرے وہم و گُماں...
  2. طارق شاہ

    ناصر کاظمی : ::::: پردے میں ہر آواز کے شامِل تو وہی ہے ::::::Nasir Kazmi

    غزل پردے میں ہر آواز کے شامِل تو وہی ہے ہم لا کھ بدل جائیں، مگر دِل تو وہی ہے موضوعِ سُخن ہے وہی افسانۂ شِیرِیں ! محِفل ہو کوئی، رَونَقِ محِفل تو وہی ہے محسُوس جو ہوتا ہے، دِکھائی نہیں دیتا دِل اور نظر میں حدِ فاصِل تو وہی ہے ہر چند تِرے لُطف سے محرُوم نہیں ہم لیکن دلِ بیتاب کی مُشکل تو وہی...
  3. طارق شاہ

    ناصر کاظمی ::::: چھوٹی رات، سفر لمبا تھا ::::::Nasir Kazmi

    چھوٹی رات، سفر لمبا تھا میں اِک بستی میں اُترا تھا سُرماندی کے گھاٹ پہ اُس دن جاڑے کا پہلا میلا تھا بارہ سکھیوں کا اِک جُھرمٹ سیج پہ چکّر کاٹ رہا تھا نئی نکور کنواری کلیاں کورا بدن کورا چولا تھا دیکھ کے جوبن کی پُھلواری چاند گگن پر شرماتا تھا پیٹ کی ہری بھری کیاری میں سُرخ مُکھی کا...
  4. طارق شاہ

    ناصر کاظمی :::::سُناتا ہے کوئی بُھولی کہانی ::::::Nasir Kazmi

    غزل سُناتا ہے کوئی بُھولی کہانی مہکتے مِیٹھے دریاؤں کا پانی یہاں جنگل تھے آبادی سے پہلے سُنا ہے میں نے لوگوں‌کی زبانی یہاں اِک شہر تھا ،شہرِ نگاراں ! نہ چھوڑی وقت نے اُس کی نشانی مَیں وہ دِل ہُوں دبِستانِ الَم کا جسے رَوئے گی صدیوں شادمانی تصوّر نے اُسے دیکھا ہے اکثر خِرَد کہتی ہے جس کو...
  5. طارق شاہ

    ناصر کاظمی :::::: پھر لہُو بول رہا ہے دِل میں :::::: Nasir Kazmi

    غزل پھر لہُو بول رہا ہے دِل میں دَم بہ دَم کوئی صدا ہے دِل میں تاب لائیں گے نہ سُننے والے آج وہ نغمہ چِھڑا ہے دِل میں ہاتھ ملتے ہی رہیں گے گُل چِیں آج وہ پُھول کِھلا ہے دِل میں دشت بھی دیکھے ، چمن بھی دیکھا کُچھ عجب آب و ہَوا ہے دِل میں رنج بھی دیکھے، خوشی بھی دیکھی آج کُچھ درد نیا ہے دِل...
  6. طارق شاہ

    مُشؔیر کاظمی :::::: رات ہم نے بھی یُوں خوشی کر لی :::::: Musheer Kazmi

    غزل رات ہم نے بھی یُوں خوشی کر لی دِل جَلا کر ہی روشنی کر لی آ تے جا تے ر ہا کر و صاحب! آنے جانے میں کیوں کمی کر لی کانٹے دامن تو تھام لیتے ہیں کیسے پُھولوں سے دوستی کر لی ہم نے اِک تیری دوستی کے لئے ساری دُنیا سے دُشمنی کر لی تیری آنکھوں کی گہری جِھیلوں میں غرق ہم نے یہ زندگی کر لی ہم نے...
  7. طارق شاہ

    ناصر کاظمی :::::: حُسن کہتا ہے اِک نظر دیکھو :::::: Nasir Kazmi

    ناصؔرکاظمی حُسن کہتا ہے اِک نظر دیکھو دیکھو اور آنکھ کھول کر دیکھو سُن کے طاؤسِ رنگ کی جھنکار ابر اُٹھّاہے جُھوم کر دیکھو پُھول کو پُھول کا نِشاں جانو چاند کو چاند سے اُدھر دیکھو جلوۂ رنگ بھی ہے اِک آواز شاخ سے پُھول توڑ کر دیکھو جی جلاتی ہے اوس غُربت میں پاؤں جلتے ہیں گھاس پر دیکھو...
  8. طارق شاہ

    ناصر کاظمی ::::: نشاطِ خواب ::::: Nasir Kazmi

    نشاطِ خواب ناصؔر کاظمی ہر کُوچہ اِک طلِسم تھا، ہر شکل موہنی قصّہ ہے اُس کے شہر کا یارو شُنیدنی تھا اِک عجیب شہر درختوں کے اوٹ میں اب تک ہے یاد اُس کی جگا جوت روشنی سچ مُچ کا اِک مکان، پرستاں کہیں جسے رہتی تھی اُس میں ایک پری زاد پدمنی اُونچی فصِیلیں، فصِیلوں پہ بُرجیاں دِیواریں رنگِ...
  9. طارق شاہ

    ناصر کاظمی :::: شہر سنسان ہے کدھر جائیں :::: Nasir Kazmi

    غزل شہر سنسان ہے کدھر جائیں خاک ہو کر کہیں بکھر جائیں رات کتنی گزُر گئی لیکن اتنی ہمّت نہیں ، کہ گھر جائیں یوں تِرے دھیان سے لرزتا ہُوں جیسے پتّے ہوا سے ڈر جائیں اُن اجالوں کی دُھن میں ‌پھرتا ہُوں چَھب دِکھاتے ہی جو گزُر جائیں رین اندھیری ہے اور کنارہ دُور چاند نکلے تو، پار اُتر جائیں...
  10. طارق شاہ

    ناصر کاظمی :::: شعاعِ حُسن تِرے حُسن کو چھپاتی تھی :::: Nasir Kazmi

    غزل شعاعِ حُسن تِرے حُسن کو چھپاتی تھی وہ روشنی تھی کہ صُورت نظر نہ آتی تھی کسے مِلیں، کہاں جائیں کہ رات کالی ہے وہ شکل ہی نہ رہی ، جو دِیے جلاتی تھی وہ دن توتھے ہی حقیقت میں عمرکا حاصل خوشا وہ دن ، کہ ہمیں روز موت آتی تھی ذرا سی بات سہی ، تیرا یاد آجانا ! ذرا سی بات بہت دیر تک رُلاتی...
  11. طارق شاہ

    ناصر کاظمی :::: صدائے رفتگاں پھر دِل سے گزُری -- Nasir Kazmi

    غزلِ صدائے رفتگاں پھر دِل سے گزُری نگاہِ شوق، کِس منزِل سے گزُری کبھی روئے ، کبھی تُجھ کو پُکارا شبِ فُرقت بڑی مُشکل سے گزُری ہوائے صُبْح نے چونْکا دِیا، یُوں ! تِری آواز جیسے دِل سے گزُری مِرا دل خُوگرِ طُوفاں ہے، ورنہ ! یہ کشتی بارہا ساحِل سے گزُری ناصرکاظمی
  12. طارق شاہ

    ناظم کاظمی " مجھے محسوس ہوتا ہے کہ لُطفِ زندگی کم ہے "

    غزل ناظم کاظمی مجھے محسوس ہوتا ہے کہ لُطفِ زندگی کم ہے غمِ دل حد سے بڑھ کر ہے، میّسراب خوشی کم ہے مُسلسَل دِل کی بے چینی کو کیا کہتے ہیں دل والو؟ تمھیں معلوم ہو شاید، مجھے تو آگہی کم ہے اب اِس کے بعد، جِسْم و جاں جلانے سے بھی کیا حاصل ! چراغوں میں لہُو جلتا ہے پھر بھی روشنی کم ہے...
  13. S

    ناصر کاظمی دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا

    دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا وہ تری یاد تھی اب یاد آیا آج مشکل تھا سنبھلنا اے دوست تو مصیبت میں عجب یاد آیا دن گزارا تھا بڑی مشکل سے پھر تیرا وعدہ شب یاد آیا تیرا بھولا ہوا پیماِن وفا مر رہیں گے اگر اب یاد آیا پھر کئی لوگ نظر سے گزرے پھر...
  14. N

    ناصر کاظمی کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے

    کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے گزر گئی جرس گل اداس کرکے مجھے میں سو رہا تھا کسی یاد کے شبستاں میں جگا کے چھوڑ گئے قافلے سحر کے مجھے میں تیرے درد کی تغیانیوں میں ڈوب گیا پکارتے رہے تارے ابھر ابھر کے مجھے تیرے فراق کی راتیں کبھی نہ بھولیں گی مزے...
Top