غزل
بھیڑ میں اِک اجنبی کا سامنا اچّھا لگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔
سب سے چُھپ کر وہ کِسی کا دیکھنا اچھا لگا۔ ۔ ۔۔
سُر مئی آنکھوں کے نیچے پُھول سے کِھلنے لگے۔
کہتے کہتے کُچھ کسی کا سوچنا ، اچّھا لگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بات تو کُچھ بھی نہیں تھیں لیکن اس کا ایک دَم۔ ۔
ہاتھ کو ہونٹوں پہ رکھ کر روکنا...