غزلِ
بہادرشاہ ظفر
جو دل میں ہو، سو کہو تم، نہ گفتگُو سے ہٹو
رہو، پر آنکھ کے آگے، نہ رُوبرُو سے ہٹو
میں آپ پھیرتا ہُوں، اپنے حلْق پر خنجر
چھُری اُٹھالو تم اپنی، مِرے گلُو سے ہٹو
شہیدِ ناز کے، ہرزخْم سے ہے خُوں جاری
تمھارا، تر نہ ہو دامن کہیں لہُو سے، ہٹو
جو پیش آئے وہ مستو، کرم ہے ساقی...
جو جو گلاں سردی دوتاں وِچ اے دل جانی ڑا
ہوتی لاج تو ڈب ہی مردی ترتی پھر کر پانی ڑا
حوراں پریاں جک وِچ دبہیں بہتی سے ان نیونال
پر کوئی سانوں خیر نہ آیا سو نڑاں لو سادا سانی ڑا
اچھی لیتے گھبرا ساڈی اک دن بھی نا پُچھتا حال
آئے ساڈے ہونٹوں اوتے آخر جاں نمانی ڑا
میں بھی تینڈے سنگ چلوں گی بیٹھ...
غزل
بہادرشاہ ظفر
کیا کہیں اُن سے، بُتوں میں ہم نے کیا دیکھا نہیں
جو یہ کہتے ہیں! سُنا ہے، پرخُدا دیکھا نہیں
جب سے دیکھا ہے تِرے ابرُو کو ہم نے مہ جبِیں
ماہ کو تو آسماں پر آنکھ اُٹھا دیکھا نہیں
پہلے ہی سے حُسن کا اپنے ہے تجھ کو اِک غرور
آئینہ ، تُو نے ابھی اے خود نُما دیکھا نہیں
خوف ہے...