مِیرِ سپاہ ناسزا لشکریاں شکستہ صف
آہ وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف
تیرے محیط میں کہیں گوہرِ زندگی نہیں
ڈھُونڈ چکا میں موج موج دیکھ چکا صدف صدف
عشقِ بُتاں سے ہاتھ اٹھا اپنی خُودی میں ڈُوب جا
نقش و نگار دیر میں خونِ جگر نہ کر تلف
کھول کے کیا بیاں کروں سِرِ مقام مَرگ و عشق
عشق ہے مرگ...
آج ٹی وی پہ ایک پروگرام کے دوران یہ سننے کو ملا کہ
"بحرِ شکست اردو میں صرف علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے استعمال کی ہے، بالِ جبریل کی نظم مسجدِ قرطبہ میں۔"
مسجد قرطبہ
(ہسپانیہ کی سرزمین ، بالخصوص قرطبہ میں لکھی گئی)
سلسلۂ روز و شب ، نقش گر حادثات
سلسلۂ روز و شب ، اصل حیات و ممات
سلسلۂ...