زندگی دل کا سکوں چاہتی ہے
رونق شہر سبا کیا دیکھیں
کھوکھلے قہقہے پھیکی باتیں
زیست کو زیست نما کیا دیکھیں
زخم آواز ہی آئینہ ہے
صورت نغمہ سرا کیا دیکھیں
قہر دریا کا تقاضا معلوم
ہم حبابوں کے سوا کیا دیکھیں
سانس کلیوں کا رکا جاتا ہے
شوخی موج صبا کیا دیکھیں
دل ہے دیوار، نظر ہے پردہ
دیکھنے والے...
چیں بر جبیں ہو
کتنے حسیں ہو
اتنی خموشی!
گویا نہیں ہو
وہ مہرباں ہیں
کیونکر یقیں ہو
دنیا سے کھیلو
ناز آفریں ہو
یہ بے حجابی
پردہ نشیں ہو
جیسا سنا تھا
ویسے نہیں ہو
سوچو تو باقی!
سب کچھ تمہیں ہو
۔۔۔۔۔۔۔
باقی صدیقی
اپنی دھوپ میں بھی کچھ جل
ہر سائے کے ساتھ نہ ڈھل
لفظوں کے پھولوں پہ نہ جا
دیکھ سروں پہ چلتے ہل
دنیا برف کا تودہ ہے
جتنا جل سکتا ہے جل
غم کی نہیں آواز کوئی
کاغذ کالے کرتا چل
بن کے لکیریں ابھرے ہیں
ماتھے پر راہوں کے بل
میں نے تیرا ساتھ دیا
مرے منہ پر کالک مل
آس کے پھول کھلے باقؔی
دل سے گزرا...
ہم کہاں آئنہ لے کر آئے
لوگ اٹھائے ہوئے پتھر آئے
دل کے ملبے میں دبا جاتا ہوں
زلزلے کیا مرے اندر آئے
جلوہ جلوے کے مقابل ہی رہا
تم نہ آئینے سے باہر آئے
دل سلاسل کی طرح بجنے لگا
جب ترے گھر کے برابر آئے
جن کے سائے میں صبا چلتی تھی
پھر نہ وہ لوگ پلٹ کر آئے
شعر کا روپ بدل کر باقیؔ
دل کے کچھ زخم...
کیا پتا ہم کو ملا ہے اپنا
اور کچھ نشہ چڑھا ہے اپنا
کان پڑتی نہیں آواز کوئی
دل میں وہ شور بپا ہے اپنا
اب تو ہر بات پہ ہوتا ہے گماں
واقعہ کوئی سنا ہے اپنا
ہر بگولے کو ہے نسبت ہم سے
دشت تک سایہ گیا ہے اپنا
خود ہی دروازے پہ دستک دی ہے
خود ہی در کھول دیا ہے اپنا
دل کی اک شاخ بریدہ کے سوا
چمن دہر...
دل قتیلِ ادا تھا پہلے بھی
کوئی ہم سے خفا تھا پہلے بھی
ہم تو ہر دَور کے مسافر ہیں
ظلم ہم پر رَوا تھا پہلے بھی
ہر سہارا پہاڑ کی صورت
اپنے سر پر گرا تھا پہلے بھی
دل کے صحراؤں کو بسائے کوئی
شہر تو اک بسا تھا پہلے بھی
وقت کا کوئی اعتبار نہیں
ہم نے تم سے کہا تھا پہلے بھی
آپ ہی اپنے سامنے تھے ہم...
یہ غزل محمد وارث صاحب کی نذر ہے -
داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دیے جلانے لگے
کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں
ہم یہ کیسے قدم اٹھانے لگے
ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے...