غزل
باقرزیدی
قد قیامت، بدن بلا کا ہے
رزقِ شعر وسُخن بلا کا ہے
قندِ لب کا مزہ ہے باتوں میں
یار شیریں دَہَن بلا کا ہے
ساری رنگینیاں غزل کی نِثار
اُس کا سادہ سُخن بلا کا ہے
سب اُسی سے ہے بزْم آرائی
آپ وہ انجُمن بلا کا ہے
بُت بہت ہیں تو کیا بفضلِ خُدا
دل بھی تو برہمن بلا کا ہے
ہم بھی...