baquer zaidi

  1. طارق شاہ

    باؔقر زیدی ::::: خالقِ حُسنِ کائنات ہے وہ::::: Baquer Zaidi

    نظم اللہ جمیلُ و یحبُ الجمال (اللہ حَسِین ہے اور حُسن سے محبّت کرتا ہے) خالقِ حُسنِ کائنات ہے وہ خالقِ کُلِّ ممکنات ہے وہ خالقِ کائناتِ حُسن ہی حُسن اُس کی ذات و صِفات حُسن ہی حُسن حُسن سے مُنکشف نمودِ خُدا حُسن ہی حُسن ہے وجودِ خُدا سر بَسر حُسنِ نُورِ ذات ہے وہ صاحبِ مظہَرِ صِفات ہے وہ...
  2. طارق شاہ

    باؔقر زیدی ::::: اب تو ایسی کوئی گھڑی آئے! ::::: Baquer Zaidi

    غزل اب تو ایسی کوئی گھڑی آئے! حُسن کو خود سُپردگی آئے اب ہَمَیں دے گی کیامزہ یہ شراب ہم تو آنکھوں سے اُس کی، پی آئے دُشمنوں سے بھی راہ و رسم بڑھیں دوستوں میں جو کچھ کمی آئے دِل کے آنگن میں کُچھ اندھیرا ہے کسی مُکھڑے کی روشنی آئے اِس طرح آرہا ہے دِل کا مکیں...
  3. طارق شاہ

    باؔقر زیدی ::::: جو اہلِ دِل ہیں آلِ پیمبرؑ کے ساتھ ساتھ ::::: Baquer Zaidi

    غزل جو اہلِ دِل ہیں آلِ پیمبرؑ کے ساتھ ساتھ محشر میں ہونگے ساقئ کوثرؑ کے ساتھ ساتھ کمتر کا بھی مقام ہے برتر کے ساتھ ساتھ کانٹے لگے ہُوئے ہیں گُلِ تر کے ساتھ ساتھ آئی نہ جانے کیوں کسی بچھڑے ہُوئے کی یاد دیکھے جو دو پرند برابر کے ساتھ ساتھ میرا وجوُد بھی تو بنے اِک چراغِ نُور گردِش...
  4. طارق شاہ

    باؔقر زیدی :::::کُچھ نئے حرف لِکھوں، کوئی نئی بات کروں ::::: Baquer Zaidi

    غزل کُچھ نئے حرف لِکھوں، کوئی نئی بات کروں کُچھ تو ہو پاس مِرے جس سے مباہات کروں اجنبیّت! تِرے ماحول میں دَم گُھٹتا ہے کوئی ایسا بھی مِلے، جس سے کوئی بات کروں کُچھ تو مجھ سے بھی مِلے میرے تمدّن کا سُراغ ترک مَیں کیوں روِشِ پاسِ روایات کروں گردِشِ وقت، کہ پُوچھے ہے زمانے کا مزاج! سامنے...
  5. طارق شاہ

    باؔقر زیدی ::::: حمد ہے ، شُکر ہے، ثنا ہے غزل ::::: Baquer Zaidi

    غزل حمد ہے ، شُکر ہے، ثنا ہے غزل عِشق کو حُسن کی عطا ہے غزل خوش عقِیدہ ہے خوش نَوا ہے غزل فکر و احساس کی ضِیا ہے غزل نعت کے شعر خُوب لکھتی ہے واقفِ حقِ مُصطفٰی ؐہے غزل مدحِ مولا علیؑ کے بارے میں غاؔلب و ؔمیر کی نَوا ہے غزل کہیں حُبِّ علیؑ غزل کا مزاج کہیں بغضِ مُعاویہ ہے غزل ہے تغزّل بھی...
  6. طارق شاہ

    باقر زیدی ::::: ذکر اُس کا اگر پیکرِ اشعار میں آوے ::::: Baquer Zaidi

    باقر زیدی غزل ذکر اُس کا اگر پیکرِ اشعار میں آوے کیا کیا نہ مزہ لذّتِ گُفتار میں آوے مطلُوبِ نظر چشمِ طلبگار میں آوے سُورج کی طرح رَوزن دِیوار میں آوے رکھّا ہے قدم حضرتِ غالب کی زمیں پر کُچھ اور بُلندی مِرے افکار میں آوے سچ پُوچھو تو مجھ کو بھی وہی وجہ سکوں ہے وہ چین، جو تجھ کو مِرے...
Top