غزل
(بیدم شاہ وارثی - بارہ بنکی)
میں غش میں ہوں، مجھے اتنا نہیں ہوش
تصّور ہے ترا یا تو ہم آغوش
جو نالوں کی کبھی وحشت نے ٹھانی
پکارا ضبط بس خاموش خاموش
کسے ہو امتیاز جلوہء یار
ہمیں تو آپ ہی اپنا نہیں ہوش
اُٹھا رکھا ہے اک طوفان تو نے
ارے قطرے ترا اللہ رے جوش
میں ایسی یاد کے قرباں جاؤں
کیا جس...
غزلِ
نہ کسی کو فکرِ منزِل، نہ کہیں سُراغِ جادہ
یہ عجیب کارواں ہے، جو رَواں ہے بے اِرادہ
یہی لوگ ہیں، ازل سے جو فریب دے رہے ہیں !
کبھی ڈال کر نقابیں، کبھی اَوڑھ کر لِبادہ
مِرے روز و شب یہی ہیں، کہ مجھی تک آ رہی ہیں !
تِرے حُسن کی ضیائیں کبھی کم، کبھی زیادہ
سرِ انجُمن تغافل کا صِلہ بھی دے...
غزلِ
کبھی اپنے عشق پہ تبصرے، کبھی تذکرے رُخِ یار کے
یونہی بِیت جائیں گے یہ بھی دن، جو خِزاں کے ہیں نہ بہار کے
یہ طلِسمِ حُسنِ خیال ہے، کہ فریب فصلِ بہار کے
کوئی جیسے پُھولوں کی آڑ میں ابھی چُھپ گیا ہے پُکار کے
سِیو چاکِ دامن و آستیں، کہ وہ سرگراں نہ ہوں پھر کہِیں
یہی رُت ہے عِشرتِ دِید کی،...
بارہ بنکی سے ملی ہے یہ الم ناک خبر
ایک انسان نے کیا ایک گدھے کا مرڈر
ہے! یہ قتل جس میں کوئی ملزم نہ وکیل
نہ عدالت، نہ وکالت، نہ ضمانت، نہ اپیلایں چہ ظلم است کہ بدیدہِ ترمی بےنام
تیغِ قاتل ہمہ گردانِ خرمی بے نام
خر بھی اب جنگ کو تیار نظر آتے ہیں
عالمی جنگ کے آثار نظر آتے...